بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں تیزی سے بدلتے سیاسی حالات میں، کیا ہم ایک نئے دور کی جانب بڑھ رہے ہیں؟ آج کل کے دور میں جہاں ٹیکنالوجی ہر شعبے کو متاثر کر رہی ہے، وہیں سیاست بھی اس سے اچھوتی نہیں ہے۔ مصنوعی ذہانت کی آمد نے جہاں ہمارے روزمرہ کے کاموں کو آسان بنایا ہے، وہیں اس کے کچھ ایسے پہلو بھی ہیں جو مستقبل میں سیاسی منظرنامے پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر محسوس ہوتا ہے کہ یہ وقت نہ صرف چیلنجز سے بھرا ہے بلکہ یہ نئے مواقع بھی لے کر آیا ہے۔ اس بلاگ پر میری کوشش ہوتی ہے کہ میں آپ کو ان تمام رجحانات، تازہ ترین خبروں اور مستقبل کی پیش گوئیوں سے آگاہ کروں جو آپ کی زندگی اور آپ کے ارد گرد کی دنیا کو متاثر کر سکتی ہیں۔ میری اپنی تحقیق اور تجزیے کی بنیاد پر، میں ایسے نکات فراہم کرتی ہوں جو آپ کو نہ صرف باخبر رکھیں گے بلکہ آپ کو آنے والے وقت کے لیے تیار رہنے میں بھی مدد دیں گے۔ اس پلیٹ فارم پر آپ کو ایسی معلومات ملیں گی جو آپ کے علم میں اضافہ کریں گی اور آپ کو دور حاضر کے اہم ترین مسائل کو سمجھنے میں رہنمائی فراہم کریں گی۔ ہمارا مقصد صرف معلومات فراہم کرنا نہیں، بلکہ آپ کو ایک ایسی بصیرت دینا ہے جو آپ کو درست فیصلے کرنے میں مدد دے۔آج کل اسرائیل کی سیاسی صورتحال نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کر رکھی ہے۔ پچھلے چند مہینوں میں وہاں کئی ایسے واقعات پیش آئے ہیں جنہوں نے نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کو حالیہ دنوں میں کتنے سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے؟ خاص طور پر قطر پر حملے اور غزہ جنگ کے بعد ان کی حکومت اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر شدید دباؤ کا شکار ہے۔ میڈیا رپورٹس اور ماہرین کی رائے سے یہ بات واضح ہے کہ اسرائیل کو اس وقت سفارتی تنہائی کا بھی سامنا ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد منظور ہوئی ہے جس نے اسرائیل کی پوزیشن کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ یہ سب کیسے ہو رہا ہے اور اس کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں؟ آئیے نیچے دی گئی پوسٹ میں مزید تفصیل سے جانتے ہیں۔
عزیز قارئین! آپ سب خیریت سے ہوں گے اور آج کے سیاسی حالات کو سمجھتے ہوئے میرے بلاگ پر آ کر تازہ ترین معلومات حاصل کرنے کی امید رکھتے ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ آج کا موضوع آپ سب کے لیے بہت اہم ہے، کیونکہ ہم ایک ایسے وقت سے گزر رہے ہیں جہاں عالمی سیاست میں تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ خاص طور پر اسرائیل کی موجودہ صورتحال، وزیراعظم بنجمن نتن یاہو کو درپیش چیلنجز، غزہ کی جنگ کے اثرات اور ان سب کے بین الاقوامی تعلقات پر پڑنے والے گہرے اثرات، یہ سب ایسے موضوعات ہیں جن پر بات کرنا بہت ضروری ہے۔ مجھے ذاتی طور پر محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت ہر خبر اور ہر پیش رفت کو باریکی سے سمجھنا ضروری ہے تاکہ ہم مستقبل کے منظرنامے کو بہتر طریقے سے جان سکیں۔ میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ میں آپ کے سامنے وہ تمام حقائق اور تجزیے پیش کروں جو آپ کو درست معلومات فراہم کریں اور آپ کو ان حالات کو اپنی زندگی اور اپنے ملک کے تناظر میں سمجھنے میں مدد دیں۔ اس بلاگ پر آپ کو ہر وہ چیز ملے گی جو آپ کو باخبر اور ہوشیار رکھے گی۔ تو آئیے، آج کے اہم ترین موضوع کی گہرائیوں میں اترتے ہیں۔
نتن یاہو کی حکومت کو درپیش شدید چیلنجز

داخلی اختلافات اور عدالتی محاذ آرائی
غزہ جنگ کی قیمت اور عوامی بے اطمینانی
آج کل اسرائیل کی سیاست میں جو ہلچل مچی ہوئی ہے، اسے دیکھ کر مجھے تو یہی لگتا ہے کہ بنجمن نتن یاہو کی حکومت کو اس وقت اپنی تاریخ کے سب سے مشکل چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک طرف عدالتی اصلاحات کے معاملے پر اندرونی طور پر سخت کشمکش جاری ہے، اور مجھے یاد ہے کہ کئی بار احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں جہاں لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ خود نتن یاہو پر بدعنوانی کے الزامات بھی ان کی سیاسی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں، اور میرا خیال ہے کہ اس سے ان کی پوزیشن مزید کمزور ہوئی ہے۔ دوسری طرف، غزہ میں جاری جنگ نے جہاں ایک طرف بے پناہ جانی نقصان پہنچایا ہے، وہیں اسرائیلی معیشت پر بھی اس کے گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ آپ خود سوچیں، ہزاروں ریزروسٹ فوجی تعینات کیے گئے ہیں اور مغربی کنارے سے فلسطینی مزدوروں پر پابندی سے لیبر کی کمی ہو گئی ہے۔ اس سب سے بڑھ کر، فوجی اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے جو ملکی بجٹ پر بوجھ بن رہا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ عوام میں جنگ کے طول پکڑنے اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاملے پر بھی شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ یہ تمام عوامل مل کر نتن یاہو کی حکومت کے استحکام کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ ان کے لیے آنے والے دن مزید مشکل ہونے والے ہیں۔
عالمی دباؤ اور اسرائیل کی سفارتی تنہائی
اقوام متحدہ کی قراردادیں اور عالمی برادری کا ردعمل
شراکت داروں سے بڑھتا فاصلہ
حالیہ عرصے میں اسرائیل پر عالمی دباؤ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ اس کی سفارتی تنہائی بڑھتی جا رہی ہے۔ میں ذاتی طور پر یہ محسوس کرتی ہوں کہ غزہ میں انسانی بحران کی سنگینی اور جنگ کے طول پکڑنے سے دنیا بھر کی رائے عامہ اسرائیل کے خلاف ہو گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کئی ایسی قراردادیں منظور ہوئی ہیں جن میں فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی بلا روک ٹوک رسائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کئی مغربی ممالک نے بھی اسرائیل پر دباؤ بڑھایا ہے اور اس کی پالیسیوں پر تنقید کی ہے۔ کچھ ممالک نے تو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی منظرنامے میں ایک واضح تبدیلی آ رہی ہے۔ امریکہ، جو اسرائیل کا سب سے قریبی اتحادی ہے، بھی اب محتاط رویہ اپنا رہا ہے اور اس نے کچھ مواقع پر اسرائیل کی فوجی کارروائیوں پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ یہ صورتحال اسرائیل کے روایتی شراکت داروں کے ساتھ تعلقات کو بھی متاثر کر رہی ہے، اور کئی مغربی اور عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب اسرائیل کو بین الاقوامی سطح پر اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔
غزہ جنگ کے انسانی اور اقتصادی اثرات
بڑھتا ہوا انسانی بحران اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی
معیشت پر جنگ کے گہرے اثرات
غزہ کی جنگ نے وہاں کے لوگوں پر جو تباہی ڈھائی ہے، اسے دیکھ کر میرا دل دکھتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میڈیا رپورٹس میں خوراک کی شدید قلت، پینے کے پانی کی کمی اور طبی امداد کی عدم دستیابی کی خبریں پڑھ کر آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ وہاں کا بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے، ہسپتال، تعلیمی ادارے اور رہائشی علاقے کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور شدید سردی میں پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے امداد کی ترسیل میں رکاوٹیں اس بحران کو مزید سنگین بنا رہی ہیں، اور بین الاقوامی امدادی تنظیمیں بھی اپنی کوششوں میں مشکلات کا شکار ہیں۔ اس جنگ کے صرف انسانی نہیں بلکہ اقتصادی اثرات بھی بہت گہرے ہیں۔ اسرائیل کی معیشت پر بھی اس کا بھاری بوجھ پڑا ہے؛ دفاعی اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، جس سے حکومتی بجٹ پر شدید دباؤ ہے۔ صنعتیں اور کاروبار متاثر ہوئے ہیں، اور مجھے یاد ہے کہ ہائی ٹیک سیکٹر سے بھی ہزاروں افراد نے ملک چھوڑ دیا ہے۔ یہ سب کچھ ملکی ترقی کی رفتار کو سست کر رہا ہے اور مستقبل میں بھی اس کے اثرات محسوس کیے جائیں گے۔
قطر کا بدلتا ہوا کردار اور سفارتی دباؤ
قطر کی ثالثی کا امتحان
تنازع کے اثرات اور بین الاقوامی تعلقات
آپ کو شاید یاد ہو کہ قطر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے لیے ایک اہم ثالث کا کردار ادا کیا ہے۔ مجھے تو یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی تھی کہ دسمبر 2023 میں قطر کے حکام نے سات روزہ جنگ بندی کرانے میں کامیابی حاصل کی تھی جس کے نتیجے میں درجنوں یرغمالی رہا ہوئے تھے۔ لیکن حال ہی میں دوحہ میں حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے اسرائیلی حملے نے اس ثالثی کے کردار پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ مجھے یہ سن کر بہت تشویش ہوئی کہ اس حملے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور قطر کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ اس واقعے نے قطر کو ایک مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا ہے، کیونکہ ایک طرف اسے اپنے عالمی ساکھ اور ثالثی کے کردار کو برقرار رکھنا ہے، اور دوسری طرف اسے اپنے ملک کی خودمختاری کا دفاع بھی کرنا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ اس حملے کے بعد عرب اور اسلامی ممالک کی طرف سے بھی شدید ردعمل آیا ہے، جس سے علاقائی تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ اس صورتحال میں قطر کے لیے اپنا توازن برقرار رکھنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے، اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ وہ کس طرح اس مشکل دور سے نکلتا ہے۔
نتن یاہو کی حکومت کا مستقبل اور انتخابی امکانات

حکومت کے اندر بڑھتی ہوئی دراڑیں
قبل از وقت انتخابات کا سایہ
مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ بنجمن نتن یاہو کی حکومت اس وقت داخلی طور پر شدید دباؤ کا شکار ہے۔ حکومتی اتحاد میں شامل الٹرا آرتھوڈوکس جماعتوں کے فوجی خدمات سے مستثنیٰ ہونے کے بل پر اختلافات نے حکومت کو ایک نئے بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ حال ہی میں دو الٹرا آرتھوڈوکس پارٹیوں نے حکومتی اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لی ہے، جس سے حکومت کی اکثریت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ یہ صورتحال قبل از وقت انتخابات کے امکانات کو بڑھا رہی ہے، جو نتن یاہو کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے، خاص طور پر جب ان کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات بھی چل رہے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ اسرائیلی عوام میں بھی جنگ کے حوالے سے نتن یاہو کی پالیسیوں پر شدید ناراضگی پائی جاتی ہے۔ ان حالات میں نتن یاہو کو اپنے سیاسی مستقبل کو بچانے کے لیے سخت فیصلے کرنے پڑ سکتے ہیں، یا پھر انہیں ایک نئے انتخابی معرکے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ میرا اپنا تجربہ یہ کہتا ہے کہ جب عوامی رائے اتنی شدت سے بدلتی ہے تو سیاسی قیادت کے لیے اپنا راستہ برقرار رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے علاقائی تعلقات میں تبدیلی
عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت
بڑی طاقتوں کا کردار اور علاقائی استحکام
مشرق وسطیٰ کے علاقائی تعلقات میں بھی حالیہ واقعات کے بعد ایک واضح تبدیلی آئی ہے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ غزہ جنگ نے “ابراہیم معاہدے” کے تحت اسرائیل کے عرب ممالک کے ساتھ معمول پر آنے والے تعلقات کو بھی متاثر کیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کئی عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کی ہے اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ خاص طور پر سعودی عرب، جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے مذاکرات کر رہا تھا، اب محتاط رویہ اپنا رہا ہے۔ اس کے علاوہ، ایران کے ساتھ علاقائی کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا ہے، جس سے پورے خطے میں سیکیورٹی کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ میں یہ دیکھ کر حیران نہیں ہوں کہ بڑی طاقتیں، جیسے امریکہ، روس اور چین، بھی اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں، جس سے حالات مزید پیچیدہ ہو رہے ہیں۔ یہ سب کچھ علاقائی استحکام کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، اور مجھے امید ہے کہ مستقبل میں حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔
| اہم پیش رفت | تاریخ/مدت | اثرات |
|---|---|---|
| غزہ جنگ کا آغاز | اکتوبر 2023 | اسرائیل میں فوجی کارروائیاں، غزہ میں شدید انسانی بحران، عالمی تنقید میں اضافہ۔ |
| اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اضافہ | 2024-2025 | اسرائیل کی سفارتی تنہائی میں اضافہ، جنگ بندی اور انسانی امداد کا عالمی مطالبہ۔ |
| اسرائیلی حکومت میں داخلی اختلافات | 2024-2025 | نتن یاہو کی قیادت پر سوالات، الٹرا آرتھوڈوکس جماعتوں کی جانب سے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا خطرہ۔ |
| قطر میں حماس کے رہنماؤں پر حملہ | ستمبر 2025 | قطر کی ثالثی کے کردار کو نقصان، علاقائی تعلقات میں کشیدگی، عالمی سطح پر مذمت۔ |
| اسرائیلی معیشت پر جنگ کا بوجھ | 2024-2025 | دفاعی اخراجات میں اضافہ، لیبر کی کمی، ہائی ٹیک سیکٹر سے انخلا، طویل مدتی اقتصادی اثرات۔ |
مستقبل کے سیاسی امکانات اور خطے پر اثرات
نئی قیادت اور پالیسیوں کی ضرورت
خطے کے لیے امن کا راستہ
اس سارے منظرنامے کو دیکھتے ہوئے، مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ اسرائیل کے سیاسی مستقبل کے لیے نئی قیادت اور پالیسیوں کی اشد ضرورت ہے۔ نتن یاہو کی حکومت کو جس طرح کے اندرونی اور بیرونی دباؤ کا سامنا ہے، اس سے لگتا ہے کہ موجودہ صورتحال زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکتی۔ میرا اپنا ماننا ہے کہ اگر اسرائیل کو اپنی سفارتی تنہائی ختم کرنی ہے اور علاقائی امن کو فروغ دینا ہے تو اسے اپنی پالیسیوں میں واضح تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ فلسطینی مسئلے کا دیرپا حل نکالنا اور دو ریاستی حل کی طرف بڑھنا ہی مستقبل میں امن کا واحد راستہ ہو سکتا ہے۔ مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ خطے کے دیگر ممالک، خاص طور پر عرب ممالک، کے ساتھ باہمی اعتماد کو بحال کرنا اور تعاون کو بڑھانا بھی بہت ضروری ہے۔ مجھے امید ہے کہ تمام فریقین حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ایسے فیصلے کریں گے جو نہ صرف اسرائیل بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے لیے امن اور استحکام کا باعث بنیں۔ بصورت دیگر، یہ کشیدگی اور عدم استحکام مزید سنگین صورتحال اختیار کر سکتا ہے، جس کے نتائج کسی کے حق میں نہیں ہوں گے۔
글을마치며
میرے پیارے قارئین، آج ہم نے اسرائیل کی پیچیدہ سیاسی صورتحال، غزہ جنگ کے دل دہلا دینے والے انسانی اور اقتصادی اثرات، اور اس سب کے بین الاقوامی تعلقات پر پڑنے والے گہرے اثرات کا بغور جائزہ لیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس تجزیے نے آپ کو حقائق کو بہتر طریقے سے سمجھنے اور اپنے ارد گرد کے حالات کو زیادہ گہرائی سے پرکھنے میں مدد دی ہوگی۔ میں ذاتی طور پر یہ سمجھتی ہوں کہ ایسے حساس موضوعات پر باخبر رہنا ہم سب کے لیے انتہائی ضروری ہے تاکہ ہم صحیح فیصلے کر سکیں اور آنے والے وقت کے لیے خود کو تیار کر سکیں۔ اس بلاگ کا مقصد ہمیشہ آپ کو مستند اور بروقت معلومات فراہم کرنا ہے، اور مجھے خوشی ہے کہ آپ اس سفر میں میرے ساتھ ہیں۔
알아두면 쓸모 있는 정보
1. مشرق وسطیٰ کی سیاست میں قطر کا کردار ایک اہم سفارتی طاقت کے طور پر ابھرا ہے، خاص طور پر اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی میں، جو خطے میں استحکام کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
2. غزہ میں انسانی بحران کی شدت اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی بے مثال ہے۔ ہزاروں بے گھر افراد کو خوراک، پانی اور طبی امداد کی شدید قلت کا سامنا ہے، جو عالمی برادری کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
3. اسرائیل پر عالمی دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں اور کئی ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلانات اسرائیل کی سفارتی تنہائی میں اضافہ کر رہے ہیں۔
4. اسرائیل کی معیشت پر غزہ جنگ کے گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ دفاعی اخراجات میں بے تحاشا اضافہ، لیبر کی کمی، اور ہائی ٹیک سیکٹر سے انخلا نے ملکی ترقی کو سست کر دیا ہے۔
5. بنجمن نتن یاہو کی حکومت کو اندرونی اختلافات اور عدالتی اصلاحات کے معاملے پر شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ حال ہی میں الٹرا آرتھوڈوکس جماعتوں کی علیحدگی کے بعد قبل از وقت انتخابات کا امکان بڑھ گیا ہے، جس سے ان کے سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
중요 사항 정리
ہم نے آج یہ دیکھا کہ اسرائیل کی موجودہ سیاسی صورتحال اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر انتہائی نازک ہے۔ بنجمن نتن یاہو کو داخلی اختلافات اور بدعنوانی کے الزامات کا سامنا ہے، جبکہ غزہ جنگ کے باعث بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کو سخت تنقید اور سفارتی تنہائی کا سامنا ہے۔ غزہ میں بڑھتا ہوا انسانی بحران اور معیشت پر جنگ کے اثرات ایک سنگین صورتحال پیدا کر چکے ہیں۔ قطر کا ثالثی کا کردار حالیہ حملے کے بعد مزید پیچیدہ ہو گیا ہے، اور خطے میں نئے اتحاد اور تعلقات ابھر رہے ہیں۔ یہ تمام عوامل مل کر مشرق وسطیٰ کے مستقبل کے لیے ایک غیر یقینی لیکن تبدیلی کے امکانات سے بھرپور منظرنامہ پیش کر رہے ہیں، جس میں پائیدار امن کے لیے نئی قیادت اور پالیسیوں کی اشد ضرورت ہے۔
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کو اس وقت کن اندرونی چیلنجز کا سامنا ہے؟
ج: مجھے ذاتی طور پر محسوس ہوتا ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت کو اندرون ملک کئی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ سب سے اہم تو غزہ میں جاری جنگ ہے جس کی وجہ سے اسرائیلی عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ جنگ کے طول پکڑنے اور یرغمالیوں کی رہائی میں ناکامی پر بہت سے لوگ نیتن یاہو کی قیادت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ میری اپنی معلومات کے مطابق، اسرائیلی فوجی سربراہ ایال زامیر نے خود اعتراف کیا ہے کہ غزہ پر مکمل قبضہ چھ ماہ میں ممکن ہے، لیکن حماس کو فوجی یا سیاسی طور پر شکست دینا مشکل ہے۔ اس بیان نے عوام کے ساتھ ساتھ حکومت کے اندر بھی مایوسی پیدا کی ہے۔ اپوزیشن لیڈر یائر لاپیڈ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اسرائیل کی عالمی تنہائی نیتن یاہو کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اس کے علاوہ، معاشی دباؤ بھی بڑھ رہا ہے کیونکہ ملک کو جنگی اخراجات اور عالمی سطح پر بائیکاٹ کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ان حالات میں حکومت کے لیے عوامی حمایت برقرار رکھنا ایک بہت بڑا امتحان ہے۔
س: غزہ جنگ نے اسرائیل کی عالمی ساکھ اور سفارتی حیثیت پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟
ج: جب میں آج کل کی خبریں دیکھتی ہوں تو مجھے یہ بات بالکل واضح نظر آتی ہے کہ غزہ جنگ نے اسرائیل کی عالمی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے تو اسرائیل کو ایک “پریا” (تنہا ہونے والی) ریاست میں تبدیل ہونے کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 2025 کے ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد بھاری اکثریت سے منظور ہوئی جس نے اسرائیل کو ایک بڑی سفارتی شکست سے دوچار کیا۔ اس قرارداد میں 142 ممالک نے دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہوئے اسرائیل پر دباؤ بڑھایا، جب کہ اسرائیل اور امریکہ سمیت صرف 10 ممالک نے اس کی مخالفت کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی برادری کی اکثریت اب فلسطینیوں کے حق میں کھڑی ہے۔ یورپی ممالک کی طرف سے اسرائیل کے خلاف ہتھیاروں اور اقتصادی پابندیوں کی دھمکیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔ یہ سب دیکھ کر مجھے یقین ہو چلا ہے کہ اسرائیل پہلے کی نسبت کہیں زیادہ سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔
س: اقوام متحدہ کی حالیہ قراردادوں اور امریکہ کے ویٹو نے اسرائیل کے مسئلے پر کیا تبدیلیاں لائی ہیں؟
ج: اگر ہم اقوام متحدہ کی حالیہ سرگرمیوں پر نظر ڈالیں تو مجھے ایک عجیب سی صورتحال نظر آتی ہے۔ ایک طرف تو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت سے دو ریاستی حل کی حمایت میں قراردادیں منظور کی ہیں، جنہیں “نیو یارک ڈیکلریشن” کا نام دیا گیا ہے۔ یہ قراردادیں عالمی رائے عامہ کا اظہار کرتی ہیں اور ظاہر کرتی ہیں کہ دنیا اب فلسطین کے معاملے پر خاموش نہیں رہنا چاہتی۔ دوسری طرف، امریکہ نے ہمیشہ کی طرح اسرائیل کی حمایت میں سلامتی کونسل میں متعدد قراردادوں پر ویٹو کا استعمال کیا ہے۔ 2024 کے فروری اور 2025 کے جون میں بھی انسانی امداد اور جنگ بندی سے متعلق قراردادوں کو امریکہ نے ویٹو کیا، جس پر عالمی برادری نے شدید تنقید کی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ دوہرا معیار عالمی انصاف کے تصور کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اگرچہ جنرل اسمبلی کی قراردادیں لازمی نفاذ کی قوت نہیں رکھتیں، لیکن وہ عالمی ضمیر اور سیاسی فضا کی عکاسی ضرور کرتی ہیں۔ یہ صورتحال مجھے بتاتی ہے کہ عالمی برادری میں تقسیم ہے لیکن فلسطینیوں کے لیے حمایت بڑھ رہی ہے، جس سے اسرائیل پر دباؤ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔






