السلام و علیکم میرے پیارے قارئین! کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ایک ایسی سرزمین کیسی ہوگی جہاں ہزاروں سال پرانی تاریخ اور جدید ٹیکنالوجی ایک ساتھ سانس لیتی ہے؟ آج میں آپ کو ایک ایسے ملک کے سفر پر لے جانے والی ہوں جس کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں کئی کہانیاں ابھر آتی ہیں۔ جی ہاں، میں بات کر رہی ہوں اسرائیل کی، جو صرف ایک جغرافیائی مقام نہیں بلکہ ثقافتوں، فنون اور ناقابل یقین مقامی رنگوں کا ایک سمندر ہے۔ میں نے خود وہاں کے بازاروں کی رونق اور گلیوں کی کہانیاں اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں، اور وہاں کے فنکاروں کی تخلیقی صلاحیتوں نے مجھے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ یہ صرف مذہبی مقامات کا مرکز نہیں بلکہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہر کونے میں ایک نئی کہانی چھپی ہوئی ہے۔ یہاں کی جدید آرٹ گیلریاں اور قدیم دستکاری ایک ساتھ پھل پھول رہی ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کیسے ماضی اور حال ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل کی ثقافت، جو کہ دنیا کے کئی حصوں سے آنے والے لوگوں کا ایک حسین امتزاج ہے، مستقبل میں عالمی فنون اور ثقافت میں ایک اہم کردار ادا کرے گی۔ یہاں کی مقامی کھانوں کی خوشبو، موسیقی کی دھنیں اور ہر تہوار پر نظر آنے والا جوش و خروش دل کو چھو لینے والا ہوتا ہے۔ چاہے وہ یروشلم کی قدیم دیواریں ہوں یا تل ابیب کی جدید عمارتیں، ہر جگہ ایک منفرد کشش ہے۔ تو چلیں، اس دلچسپ سفر میں میرے ساتھ شامل ہو کر اسرائیل کی ثقافتی رنگینیوں اور چھپی ہوئی خصوصیات کو مزید گہرائی سے جانتے ہیں۔ نیچے دی گئی تحریر میں ہم مزید تفصیل سے ان سب باتوں پر روشنی ڈالیں گے!
تاریخی شہروں کی جدید بازگشت
اسرائیل کی گلیوں میں چلتے ہوئے آپ کو ہر قدم پر تاریخ کی بازگشت سنائی دیتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ایک حیران کن جدیدت بھی نظر آتی ہے جو ماضی اور حال کو ایک خوبصورت توازن میں باندھ دیتی ہے۔ یروشلم کی قدیم دیواروں کے سائے میں چلتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ یہ شہر صرف پتھروں کا ڈھیر نہیں بلکہ زندہ ثقافتوں کا گہوارہ ہے، جہاں ہر مذہب کے لوگ اپنے عقیدے اور روایت کے ساتھ جیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے ایک بار میں نے وہاں ایک چھوٹا سا کیفے دیکھا جو ایک ہزار سال پرانی گلی میں بنا ہوا تھا، وہاں کافی پیتے ہوئے میں نے سوچا کہ یہ جگہ کتنی خاص ہے جہاں جدید دنیا کی سہولیات قدیم ورثے کے ساتھ ہم آہنگ ہو چکی ہیں۔ یہ تجربہ میرے لیے بہت منفرد تھا، کیونکہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اتنی پرانی جگہوں پر اس قدر جدید طرز زندگی اور آرٹ کی دکانیں ملیں گی۔ اس کے برعکس تل ابیب جیسے شہروں میں قدم رکھتے ہی ایک بالکل مختلف توانائی محسوس ہوتی ہے۔ یہاں کی چمکتی سڑکیں، جدید طرزِ تعمیر اور ہر کونے پر نظر آنے والی آرٹ گیلریاں آپ کو ایک نئے دور میں لے جاتی ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ کیسے یہاں کے نوجوان فنکار اپنے روایتی پس منظر کو جدید انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا حسین امتزاج ہے جو کسی اور جگہ کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے اور یہ سچ کہوں تو یہ چیز مجھے بہت پسند آئی۔ اسرائیل کی یہ خصوصیت کہ وہ اپنے ماضی کو بھلائے بغیر آگے بڑھ رہا ہے، ایک متاثر کن پہلو ہے۔ یہ دراصل اپنے ماضی کا احترام کرنا اور اسے مستقبل کے ساتھ جوڑنا ہے، جو وہاں کی روزمرہ زندگی، فن، اور لوگوں کی سوچ میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔
یروشلم کے قدیم فنون کی نئی تعبیر
یروشلم صرف مذہبی مقامات کا مرکز نہیں بلکہ یہاں صدیوں پرانے فنون کو بھی ایک نئی شکل دی جا رہی ہے۔ مجھے وہاں کی چھوٹی گلیوں میں گھومتے ہوئے بہت سی ایسی دکانیں ملیں جہاں روایتی زیورات، سیرامکس اور لکڑی کی بنی ہوئی چیزیں تیار کی جاتی ہیں۔ ان دستکاریوں میں مجھے ہمیشہ ایک خاص روحانیت اور تاریخی گہرائی محسوس ہوئی۔ ان کو بناتے وقت کاریگروں کا ہنر اور جذبہ واقعی قابلِ دید ہوتا ہے۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ ان اشیاء میں جو دلکشی ہے وہ کسی جدید فیکٹری کی بنی ہوئی چیز میں نہیں مل سکتی، کیونکہ ان میں کاریگر کی روح شامل ہوتی ہے۔ وہ اپنے فن کے ذریعے اپنی تاریخ اور ثقافت کو زندہ رکھتے ہیں، جو کہ مجھے بہت متاثر کن لگا۔ میں نے خود ایک چھوٹی سی ورکشاپ میں ایک کاریگر کو دیکھا جو مٹی کے برتنوں پر پیچیدہ ڈیزائن بنا رہا تھا، اور مجھے اس کی محنت اور لگن دیکھ کر حیرت ہوئی۔
تل ابیب: فن اور ڈیزائن کا جدید مرکز
تل ابیب شہر فن اور ڈیزائن کے حوالے سے ایک بین الاقوامی مرکز بن چکا ہے۔ یہاں کی وائٹ سٹی جو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے، جدید طرزِ تعمیر کی بہترین مثال ہے۔ میں نے تل ابیب کی گلیوں میں بہت سی ایسی گیلریاں اور سٹوڈیوز دیکھے جہاں نوجوان فنکار اپنی تخلیقات کی نمائش کرتے ہیں۔ مجھے خاص طور پر وہاں کی سٹریٹ آرٹ بہت پسند آئی، دیواروں پر بنے رنگین گرافٹیز جو شہر کی روح کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ فن یہاں صرف گیلریوں تک محدود نہیں بلکہ شہر کی ہر گلی اور ہر دیوار پر زندہ ہے۔ میرا مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ تل ابیب کے فنکار صرف نمائش کے لیے نہیں بلکہ اپنی سوچ اور پیغام کو عوام تک پہنچانے کے لیے بھی کام کرتے ہیں، جو ان کے فن کو مزید با معنی بنا دیتا ہے۔
فن اور ثقافت کا رنگین سمندر
اسرائیل ایک ایسی سرزمین ہے جہاں فن اور ثقافت مختلف رنگوں اور شیڈز میں دکھائی دیتی ہے۔ یہ صرف ایک ملک نہیں بلکہ دنیا کے مختلف کونوں سے آئے ہوئے لوگوں کا ایک کینوس ہے، جہاں ہر ثقافت نے اپنی منفرد چھاپ چھوڑی ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں پہلی بار تل ابیب کی کسی آرٹ گیلری میں گئی تو مجھے وہاں اتنی اقسام کے فن پارے دیکھنے کو ملے کہ میں حیران رہ گئی۔ ایک طرف قدیم یہودی فن پارہ تھا تو دوسری طرف ایک جدید اسرائیلی فنکار کی ایسی تخلیق جو کسی عالمی معیار سے کم نہیں تھی۔ یہ سب دیکھ کر میرا دل باغ باغ ہو گیا، کیونکہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کے لوگوں کی سوچ کتنی وسیع اور تخلیقی ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس تنوع کی وجہ سے ہی یہاں کے فن میں ایک خاص گہرائی اور تازگی ہے۔ اسرائیل کا یہ پہلو کہ وہ مختلف ثقافتوں کو گلے لگا کر ایک نیا فن تخلیق کرتا ہے، واقعی قابلِ ستائش ہے۔
موسیقی اور رقص کی روح پرور محفلیں
اسرائیلی موسیقی اور رقص ان کی ثقافت کا ایک لازمی جزو ہیں۔ مجھے وہاں مختلف مواقع پر روایتی موسیقی کی محفلیں اور رقص کی پرفارمنس دیکھنے کا موقع ملا۔ چاہے وہ مقامی شادی ہو یا کوئی مذہبی تہوار، ہر جگہ موسیقی اور رقص کا ایک خاص مقام ہے۔ میں نے خاص طور پر وہاں کے فولک ڈانس (لوک رقص) کی توانائی کو محسوس کیا جو دیکھنے والوں کو بھی اپنے ساتھ رقص کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ جب میں نے خود وہاں کے کسی لوک رقص میں حصہ لیا تو مجھے ایسا لگا جیسے میں صدیوں پرانی روایت کا حصہ بن گئی ہوں۔ وہاں کے لوگوں کا موسیقی سے لگا اور رقص میں جوش واقعی قابلِ دید ہوتا ہے۔ یہ صرف تفریح نہیں بلکہ اپنی ثقافت کو زندہ رکھنے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔
تھیٹر اور پرفارمنگ آرٹس کا عروج
اسرائیل میں تھیٹر اور پرفارمنگ آرٹس بہت تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ میں نے تل ابیب میں ایک ایسا جدید تھیٹر دیکھا جہاں نئے ڈرامے اور تجرباتی پرفارمنسز پیش کی جا رہی تھیں۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ یہاں کے فنکار صرف روایتی تھیٹر تک محدود نہیں بلکہ نت نئے تجربات کر رہے ہیں، جو عالمی سطح پر بھی سراہے جاتے ہیں۔ ان کے تھیٹرز میں مجھے زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے والے ڈرامے دیکھنے کو ملے۔ ایک ڈرامے نے تو میرے دل کو چھو لیا تھا جس میں ہنسی اور غم دونوں کا حسین امتزاج تھا۔ یہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ کتنی خوبصورتی سے اپنے معاشرتی مسائل اور جذبات کو فن کی شکل دیتے ہیں۔
مقامی بازاروں کی خوشبو اور دستکاری
اسرائیل کے مقامی بازار کسی جادوئی دنیا سے کم نہیں ہیں۔ جب میں یروشلم کے مشہور مچنہ یہودا مارکیٹ میں داخل ہوئی، تو وہاں کے رنگین ماحول، مختلف مصالحوں کی خوشبو اور سبزیوں کی تازگی نے مجھے حیران کر دیا۔ یہ صرف خرید و فروخت کا مرکز نہیں بلکہ ایک ایسا مقام ہے جہاں مقامی ثقافت اور روزمرہ زندگی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتی ہے۔ مجھے یاد ہے ایک بار میں نے وہاں ایک پرانے کاریگر کو دیکھا جو ہاتھ سے بنے چمڑے کے جوتے بیچ رہا تھا۔ اس کی محنت اور اس کی کہانی نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ ایسے بازاروں میں آپ کو نہ صرف منفرد چیزیں ملتی ہیں بلکہ مقامی لوگوں کے ساتھ گھلنے ملنے کا بھی موقع ملتا ہے، جس سے آپ کو اس جگہ کی اصل روح کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ بازار دراصل اس ملک کے دل کی دھڑکن ہیں جہاں زندگی کی رونق اور روایتی ہنر ایک ساتھ پھل پھول رہا ہے۔
روایتی دستکاریوں کی بازیافت
اسرائیل میں روایتی دستکاریوں کی بازیافت اور انہیں جدید انداز میں پیش کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ میں نے وہاں بہت سے چھوٹے سٹوڈیوز دیکھے جہاں نوجوان فنکار قدیم تکنیکوں کو استعمال کرتے ہوئے جدید ڈیزائنز بنا رہے تھے۔ مجھے خاص طور پر شیشے کی بنی ہوئی چیزیں، ہاتھ سے بنے مٹی کے برتن اور جیولری بہت پسند آئی۔ ان میں ایک خاص قسم کی انفرادیت ہوتی ہے جو انہیں عام چیزوں سے مختلف بناتی ہے۔ میرا مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ یہ فنکار صرف اپنی روزی نہیں کماتے بلکہ اپنی ثقافتی وراثت کو بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ان کا فن ہی ہے جو تاریخ کو حال کے ساتھ جوڑتا ہے، اور یہ ایک ایسی خوبصورت بات ہے جو مجھے ہمیشہ متاثر کرتی ہے۔
کھانوں اور مصالحوں کی رنگینی
بازاروں میں سب سے زیادہ دلکش چیز وہاں کے کھانوں اور مصالحوں کی خوشبو ہے۔ میں نے وہاں بہت سے ایسے سٹالز دیکھے جہاں مقامی روٹی، فالافل، شوارما اور مختلف قسم کی مٹھائیاں بک رہی تھیں۔ مجھے خاص طور پر وہاں کے زیتون کے تیل اور تازہ مصالحوں کی ورائٹی بہت پسند آئی۔ یہ صرف کھانے کی چیزیں نہیں بلکہ اس علاقے کی تاریخ اور جغرافیہ کی عکاسی بھی کرتی ہیں۔ جب میں نے وہاں کے ایک مقامی ریسٹورنٹ میں “شاکشوکا” کا مزہ لیا تو مجھے ایسا لگا جیسے میں صدیوں پرانے ذائقے چکھ رہی ہوں۔ یہ ذائقے صرف میری زبان پر ہی نہیں بلکہ میرے دل پر بھی نقش ہو گئے۔
| ثقافتی پہلو | مثال | اہمیت |
|---|---|---|
| فن تعمیر | تل ابیب کی وائٹ سٹی، یروشلم کی قدیم دیواریں | قدیم اور جدید طرز کا حسین امتزاج |
| روایتی دستکاری | سیرامکس، جیولری، لکڑی کے کام | تاریخی ورثے کا تحفظ اور جدید شکل |
| موسیقی | مشرقی اور مغربی دھنوں کا ملاپ، فولک میوزک | جذبات کا اظہار، ثقافتی شناخت |
| کھانے | فالافل، شاکشوکا، ہومس | مختلف ثقافتوں کا ذائقہ، سماجی تعلقات کا ذریعہ |
نوجوان فنکاروں کے جدید تجربات
مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ اسرائیل میں نوجوان فنکار اپنے فن کے ساتھ نت نئے تجربات کر رہے ہیں۔ وہ صرف روایتی حدوں میں قید نہیں بلکہ جدید ٹیکنالوجی اور نئے خیالات کو استعمال کرتے ہوئے ایسی تخلیقات پیش کر رہے ہیں جو عالمی سطح پر بھی توجہ حاصل کر رہی ہیں۔ تل ابیب کی گلیوں میں چلتے ہوئے میں نے کئی ایسے سٹوڈیوز اور ورکشاپس دیکھیں جہاں ڈیجیٹل آرٹ، انسٹالیشن آرٹ اور سٹریٹ آرٹ کے فنکار اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ یہ سب دیکھ کر مجھے لگا کہ یہ نوجوان فنکار صرف فن نہیں بنا رہے بلکہ ایک نئی تحریک شروع کر رہے ہیں جو اسرائیل کی ثقافتی منظرنامے کو تبدیل کر رہی ہے۔ ان کی جرأت اور تخلیقی سوچ واقعی قابلِ ستائش ہے، اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ فنکار مستقبل میں بہت نام کمائیں گے۔ ان کا کام صرف جمالیاتی نہیں بلکہ اکثر اوقات معاشرتی اور سیاسی پیغامات بھی لیے ہوتا ہے، جو ان کے فن کو مزید گہرائی بخشتا ہے۔ میں نے خود ایک نمائش میں ایک نوجوان فنکار کا کام دیکھا جس نے پرانے وقتوں کی کہانیوں کو ڈیجیٹل میڈیم میں پیش کیا تھا، اور اس کی منفرد سوچ نے مجھے بہت متاثر کیا۔
ڈیجیٹل آرٹ اور اختراعی پلیٹ فارمز
آج کے دور میں ڈیجیٹل آرٹ کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے اور اسرائیلی فنکار اس میدان میں بھی پیچھے نہیں ہیں۔ میں نے وہاں بہت سے ایسے فنکاروں سے ملاقات کی جو کمپیوٹر گرافکس، اینیمیشن اور ورچوئل رئیلٹی کا استعمال کرتے ہوئے حیرت انگیز فن پارے تخلیق کر رہے ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ وہ کیسے جدید ٹیکنالوجی کو روایتی فن کے ساتھ ملا کر ایک نیا انداز پیش کر رہے ہیں۔ ان کے کام کو عالمی پلیٹ فارمز پر بھی سراہا جاتا ہے، اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی تخلیقی صلاحیتیں کتنی وسیع ہیں۔ یہ نوجوان فنکار صرف اسرائیل کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک متاثر کن مثال بن رہے ہیں۔
سٹریٹ آرٹ: شہر کی دیواروں پر فن کا اظہار
تل ابیب اور دیگر شہروں کی دیواریں نوجوان فنکاروں کے لیے ایک کینوس کا کام کرتی ہیں۔ مجھے وہاں کی گلیوں میں چلتے ہوئے بہت سے رنگین گرافٹیز اور میورلز دیکھنے کو ملے۔ یہ سٹریٹ آرٹ صرف دیواروں کی خوبصورتی نہیں بڑھاتا بلکہ اکثر اوقات اہم سماجی پیغامات بھی دیتا ہے۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ یہ فنکار اپنے ارد گرد کے ماحول اور معاشرتی مسائل پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں، اور انہیں اپنے فن کے ذریعے اجاگر کرتے ہیں۔ سٹریٹ آرٹ کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ یہ ہر ایک کے لیے قابلِ رسائی ہے، آپ کو کسی گیلری میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ شہر کی ہر گلی آپ کے لیے ایک آرٹ گیلری بن جاتی ہے۔
اسرائیلی کھانوں کی ذائقہ دار کہانی
اسرائیل کے کھانوں کی دنیا صرف ذائقوں کا ایک مجموعہ نہیں بلکہ یہ ثقافتوں کا ایک خوبصورت سنگم ہے جو صدیوں سے ترقی کر رہا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی بار تل ابیب کے ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں “ہومس” چکھا تو مجھے ایسا لگا جیسے میں کسی دوسرے ہی ذائقہ دار دنیا میں پہنچ گئی ہوں۔ اس کا کریمی ٹیکسچر اور زیتون کے تیل کے ساتھ اس کا منفرد ذائقہ مجھے آج بھی یاد ہے۔ یہ کھانے صرف پیٹ بھرنے کے لیے نہیں بلکہ ہر ڈش میں ایک کہانی اور ایک روایت پوشیدہ ہوتی ہے۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ اسرائیل کے کھانے صرف ذائقے میں ہی نہیں بلکہ اپنی تیاری کے طریقے اور اجزاء کے انتخاب میں بھی بہت خاص ہیں۔ یہاں کے مقامی بازاروں میں چلتے ہوئے میں نے مختلف قسم کی تازہ سبزیاں، پھل اور مصالحے دیکھے جو ان کھانوں کو مزید خاص بنا دیتے ہیں۔ ہر شہر اور ہر علاقے کے اپنے منفرد کھانے ہیں جو اس کی ثقافتی شناخت کو اجاگر کرتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ اور بحیرہ روم کے ذائقوں کا امتزاج
اسرائیلی کھانے مشرق وسطیٰ اور بحیرہ روم کے ذائقوں کا ایک دلکش امتزاج ہیں۔ یہاں آپ کو عرب، یہودی، ترک اور یورپی کھانوں کے اثرات ملیں گے۔ مجھے خاص طور پر “فالافل” اور “شاکشوکا” بہت پسند آئے، یہ ڈشیں اپنی سادگی کے باوجود ذائقے میں بہت بھرپور ہوتی ہیں۔ جب میں نے ان کھانوں کو مقامی لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کھایا تو مجھے ان کی ثقافت کو مزید گہرائی سے سمجھنے کا موقع ملا۔ یہ کھانے صرف غذا نہیں بلکہ سماجی تقریبات کا بھی ایک اہم حصہ ہیں، جہاں لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر گفتگو کرتے ہیں اور اپنے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔ یہ کھانے ہمیں بتاتے ہیں کہ کس طرح مختلف ثقافتیں ایک ساتھ مل کر ایک نیا اور لذیذ ذائقہ پیدا کر سکتی ہیں۔
صحتمند اجزاء اور مقامی پیداوار
اسرائیلی کھانے اپنی تازگی اور صحتمند اجزاء کے لیے بھی مشہور ہیں۔ یہاں لوگ تازہ سبزیوں، زیتون کے تیل اور دالوں کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ وہ اپنی مقامی پیداوار کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور صحت بخش غذا کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں۔ جب میں نے وہاں کے کسی کھیت کا دورہ کیا تو مجھے وہاں کی تازہ سبزیوں اور پھلوں کو دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ اس بات نے مجھے بہت متاثر کیا کہ وہ کس طرح اپنی زمین سے جڑی ہوئی روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور جدید طرز زندگی میں بھی صحت مند غذا کو ترجیح دیتے ہیں۔
موسیقی اور رقص کی بے خود کر دینے والی دھنیں
اسرائیل کی موسیقی اور رقص صرف تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ ان کے جذبات، تاریخ اور ثقافتی شناخت کا ایک اہم حصہ ہیں۔ مجھے وہاں کی گلیوں اور تہواروں میں ایسی دھنیں سننے کو ملیں جو میرے دل کو چھو گئیں اور مجھے رقص کرنے پر مجبور کر دیا۔ چاہے وہ یروشلم کی کسی پرانی گلی میں بجنے والی روایتی موسیقی ہو یا تل ابیب کے کسی جدید کلب میں چلنے والی الیکٹرانک میوزک، ہر جگہ ایک خاص توانائی اور جذبہ محسوس ہوتا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے اسرائیلی لوگ اپنی موسیقی اور رقص کے ذریعے اپنی خوشیوں اور غموں کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ ان کی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے اور یہ ان کے معاشرے میں رچی بسی ہوئی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ کیسے قدیم دھنیں اور جدید تالیں ایک ساتھ مل کر ایک نیا اور دلکش انداز پیدا کرتی ہیں۔ یہ دراصل ان کی ثقافت کا ایک خوبصورت مظہر ہے کہ وہ اپنے ماضی کو اپنے حال کے ساتھ کتنی خوبصورتی سے جوڑتے ہیں۔
فولک میوزک اور روحانی راگ
اسرائیل کا فولک میوزک اور روحانی راگ ان کی گہری مذہبی اور ثقافتی جڑوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ مجھے وہاں کے مختلف مذہبی اجتماعات اور تہواروں میں روایتی یہودی موسیقی سننے کا موقع ملا۔ ان دھنوں میں ایک خاص قسم کی روحانیت اور سکون محسوس ہوتا ہے جو سننے والے کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ یہ موسیقی صرف کانوں کو ہی نہیں بلکہ روح کو بھی سکون دیتی ہے۔ ان راگوں میں صدیوں کی تاریخ اور ایمان کی کہانی چھپی ہوئی ہے جو آج بھی اتنی ہی ترو تازہ ہے۔ یہ موسیقی ان کے دلوں کو جوڑے رکھتی ہے اور انہیں اپنی وراثت سے قریب کرتی ہے۔
جدید موسیقی کے تجربات اور عالمی اثرات
جدید اسرائیلی موسیقی عالمی سطح پر بھی اپنی پہچان بنا رہی ہے۔ مجھے وہاں کے نوجوان موسیقاروں کی تخلیقات سن کر بہت خوشی ہوئی جو مختلف انواع کی موسیقی، جیسے پاپ، راک، جاز اور الیکٹرانک میوزک کے ساتھ تجربات کر رہے ہیں۔ وہ عالمی رجحانات سے متاثر ہو کر اپنی منفرد آواز پیدا کر رہے ہیں جو اسرائیل کو موسیقی کے عالمی نقشے پر ایک اہم مقام دیتی ہے۔ میں نے خود وہاں کے کسی کنسرٹ میں شرکت کی اور مجھے ان کی توانائی اور جوش نے بہت متاثر کیا۔ یہ فنکار صرف مقامی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنے فن کا لوہا منوا رہے ہیں۔
فلم اور ادب کی دنیا میں اسرائیل کا مقام
اسرائیل صرف خوبصورت مناظر اور لذیذ کھانوں تک محدود نہیں بلکہ اس نے فلم اور ادب کے میدان میں بھی اپنی ایک منفرد پہچان بنائی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر ہمیشہ خوشی ہوتی ہے کہ کس طرح اسرائیل کے فلمساز اور ادیب دنیا کو اپنی کہانیاں سناتے ہیں۔ ان کی فلمیں اور کتابیں اکثر گہرے انسانی جذبات، سماجی مسائل اور تاریخی پس منظر کو اجاگر کرتی ہیں۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ اسرائیل کی فلموں میں ایک خاص حقیقت پسندی ہوتی ہے جو دیکھنے والے کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ وہاں کے فلم فیسٹیولز میں عالمی معیار کی فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جاتی ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کے فنکاروں کی سوچ کتنی وسیع ہے۔ ادب کے میدان میں بھی اسرائیلی ادیبوں نے عالمی سطح پر اپنا لوہا منوایا ہے۔ ان کی کتابوں کو دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا جاتا ہے اور وہ بہترین فروخت ہونے والی کتابوں کی فہرست میں شامل ہوتی ہیں۔
عالمی سطح پر سراہا جانے والا اسرائیلی سنیما
اسرائیلی سنیما نے حالیہ برسوں میں عالمی سطح پر بہت پذیرائی حاصل کی ہے۔ مجھے وہاں بہت سی ایسی فلمیں دیکھنے کو ملیں جنہیں بین الاقوامی فلم فیسٹیولز میں ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ ان فلموں کی سب سے خاص بات ان کی حقیقت پسندی اور کہانیوں کی گہرائی ہے۔ وہ معاشرتی مسائل، ذاتی تعلقات اور تاریخی واقعات کو بہت خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں۔ میں نے ایک اسرائیلی فلم دیکھی جس نے مجھے اندر تک ہلا دیا تھا، اس میں اداکاروں کی پرفارمنس اور ہدایتکاری کا انداز بہت شاندار تھا۔ یہ فلمیں نہ صرف تفریح فراہم کرتی ہیں بلکہ ناظرین کو سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہیں۔
ادبی تخلیقات اور نئے مصنفین
اسرائیل کا ادبی منظرنامہ بھی بہت جاندار اور متحرک ہے۔ مجھے وہاں کے کتابوں کی دکانوں میں بہت سے نئے اور پرانے اسرائیلی مصنفین کی کتابیں ملیں۔ ان ادیبوں کی تحریروں میں اسرائیلی معاشرت، تاریخ اور انسانی تجربات کی عکاسی ہوتی ہے۔ خاص طور پر نئے مصنفین جو کہ روایتی موضوعات سے ہٹ کر جدید طرز پر کہانیاں لکھ رہے ہیں۔ مجھے ایک مقامی ادیب کی کہانی بہت پسند آئی جس میں اس نے تل ابیب کی نوجوان نسل کے مسائل کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا تھا۔ یہ ادب صرف مقامی قارئین کے لیے نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی ایک خاص پہچان بنا رہا ہے۔
글을마چتے ہوئے
اسرائیل کا یہ سفر میرے لیے صرف ایک جغرافیائی تجربہ نہیں تھا بلکہ یہ انسانیت، ثقافت اور فن کے ایک انمول خزانے کی دریافت تھی۔ قدیم گلیوں میں چلتے ہوئے جہاں تاریخ کی سانسیں سنائی دیتی ہیں، وہیں جدید شہروں کی چمک دمک میں مستقبل کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ سرزمین محض پتھروں اور عمارتوں کا مجموعہ نہیں بلکہ زندہ دل لوگوں کا ایک معاشرہ ہے جو اپنے ورثے کو فخر سے سنبھالے ہوئے ہیں اور اسی کے ساتھ نئے راستے بھی بنا رہے ہیں۔ یہاں کی ہر چیز میں ایک کہانی، ایک گیت، اور ایک ایسی روح ہے جو آپ کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ یہ سچ کہوں تو میرا دل یہیں رہ گیا، اور میں آپ سب کو بھی یہی مشورہ دوں گی کہ ایک بار اس سرزمین کو ضرور دیکھیں تاکہ آپ خود اس حسین امتزاج کا تجربہ کر سکیں۔
جاننے کے لیے مفید معلومات
1. اسرائیل ایک ایسا ملک ہے جہاں آپ کو تین بڑے مذاہب (یہودیت، عیسائیت اور اسلام) کی گہری تاریخی اور ثقافتی جڑیں ملیں گی۔ یہاں کی گلیوں میں گھومتے ہوئے آپ کو ہر مذہب سے متعلق اہم مقامات نظر آئیں گے۔
2. تل ابیب کو ‘وائٹ سٹی’ بھی کہا جاتا ہے اور یہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔ یہاں جدید طرز تعمیر اور آرٹ گیلریاں بہت زیادہ ہیں جو فن کے شوقین افراد کے لیے بہترین جگہ ہے۔
3. اسرائیلی کھانے اپنی تازگی اور مشرق وسطیٰ اور بحیرہ روم کے ذائقوں کے امتزاج کے لیے مشہور ہیں۔ ہومس، فالافل، شوارما اور شاکشوکا ضرور آزمائیں۔ مقامی بازاروں میں تازہ مصالحے اور پیداوار سے لطف اٹھائیں۔
4. یہاں کے لوگ اپنی ثقافت اور فن سے بہت محبت کرتے ہیں۔ آپ کو موسیقی، رقص اور تھیٹر کی بہت سی محفلیں دیکھنے کا موقع ملے گا جو آپ کے سفر کو مزید یادگار بنا دیں گی۔
5. اسرائیل کے نوجوان فنکار اور ادیب بہت تخلیقی ہیں اور وہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اپنی کہانیاں بیان کر رہے ہیں۔ سٹریٹ آرٹ، ڈیجیٹل آرٹ اور عالمی معیار کی فلمیں اور ادبی تخلیقات یہاں کی پہچان ہیں۔
اہم نکات کا خلاصہ
اسرائیل ایک ایسی سرزمین ہے جہاں ماضی اور حال، روایت اور جدیدت ایک دوسرے میں گھلے ملے ہیں۔ یہاں کی قدیم دیواریں اور جدید فلک بوس عمارتیں، صدیوں پرانی دستکاریاں اور جدید آرٹ کی نمائشیں، روایتی دھنیں اور جدید موسیقی، اور مختلف ثقافتوں کے کھانے سب مل کر ایک منفرد اور دلکش تجربہ پیش کرتے ہیں۔ یہ ملک صرف اپنی تاریخ کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنی متحرک ثقافت، فنی اظہار اور اختراعی سوچ کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ میں نے اپنے سفر کے دوران جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، اس نے مجھے سکھایا کہ کس طرح ایک جگہ مختلف اقدار کو ایک ساتھ لے کر چل سکتی ہے اور ایک نیا رنگ پیدا کر سکتی ہے۔ یہاں کے لوگوں کی مہمان نوازی اور اپنے ورثے سے محبت نے مجھے بہت متاثر کیا۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جو آپ کے دل میں ایک خاص جگہ بنا لے گا۔
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: اسرائیل کی ثقافتی تنوع کس طرح منفرد ہے اور وہاں مجھے کون سی ثقافتیں دیکھنے کو مل سکتی ہیں؟
ج: میرے پیارے دوستو، اسرائیل کی سب سے دلکش چیز اس کی ثقافتی رنگارنگی ہے۔ یہ کوئی عام جگہ نہیں بلکہ مختلف پس منظر سے آئے ہوئے لوگوں کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ جب میں وہاں تھی، مجھے لگا جیسے میں ایک ہی وقت میں کئی دنیاؤں کا سفر کر رہی ہوں۔ یہاں آپ کو مشرقی یورپ سے آئے یہودیوں کی گہری روایتیں ملیں گی، جن کی عبادت گاہوں میں گونجتی دعائیں اور خاص پکوان آپ کے دل کو چھو لیں گے۔ پھر وہاں یمنی، مراکشی اور ایتھوپیائی یہودی بھی ہیں، جن کے موسیقی، رقص اور لباس ان کی قدیم میراث کی عکاسی کرتے ہیں۔ میں نے یروشلم کی تنگ گلیوں میں چلتے ہوئے عربوں کی مہمان نوازی کا تجربہ کیا، ان کے بازاروں میں پھیلی مصالحوں کی خوشبو آج بھی مجھے یاد ہے۔ تل ابیب میں آپ کو ایک جدید، مغربی طرز کی آزاد خیال ثقافت ملے گی، جہاں نوجوان آرٹسٹ اور کاروباری لوگ نئے خیالات کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ یہ صرف کتابوں میں پڑھنے والی باتیں نہیں، بلکہ میں نے خود محسوس کیا کہ کیسے یہ تمام ثقافتیں ایک دوسرے میں گھل مل کر ایک بالکل نئی، منفرد اسرائیلی شناخت کو جنم دے رہی ہیں۔ یہ تنوع صرف مذہبی نہیں بلکہ کھانے، آرٹ، موسیقی اور روزمرہ کے انداز میں بھی نمایاں ہے، جو آپ کے سفر کو واقعی یادگار بنا دے گا۔
س: اسرائیل میں فنون اور دستکاری کی کیا حیثیت ہے اور کیا وہاں کے مقامی فنکار واقعی تخلیقی ہیں؟
ج: ہاں بالکل! اسرائیل کے فنکار ناقابل یقین حد تک تخلیقی اور باصلاحیت ہیں۔ جب میں نے وہاں کے آرٹ سین کو دیکھا تو میں حیران رہ گئی۔ یروشلم اور صفد جیسی قدیم بستیوں میں آپ کو صدیوں پرانی دستکاری ملے گی، جہاں کاریگر ہاتھ سے بنی جیولری، مذہبی اشیاء اور سیرامکس بناتے ہیں۔ ان کے کام میں ایک روحانی گہرائی ہوتی ہے جو آپ کو کہیں اور نہیں ملے گی۔ مجھے خاص طور پر صفد کے آرٹسٹ کالونی میں گزارا ہوا وقت یاد ہے، جہاں ہر گلی میں ایک آرٹ گیلری تھی اور ہر فنکار اپنی کہانی بیان کر رہا تھا۔ لیکن اس کے برعکس، تل ابیب ایک جدید آرٹ کا مرکز ہے، جہاں جدید آرٹ گیلریاں اور گرافیٹی آرٹسٹ اپنی دیواروں کو کینوس بناتے ہیں۔ میں نے وہاں کے میوزیمز میں مقامی اور بین الاقوامی فنکاروں کے چونکا دینے والے کام دیکھے، جو روایتی اور جدید کا ایک خوبصورت امتزاج پیش کر رہے تھے۔ یہ صرف ماضی کی بات نہیں، بلکہ آج بھی نوجوان فنکار نئے خیالات اور تکنیکوں کے ساتھ تجربات کر رہے ہیں، اور ان کی تخلیقی صلاحیتیں واقعی متاثر کن ہیں۔ میرے نزدیک، اسرائیل فن کے شائقین کے لیے ایک چھپا ہوا خزانہ ہے، جہاں ہر کونے میں ایک نئی فنکارانہ دریافت آپ کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔
س: اسرائیلی کھانوں کی کیا خصوصیات ہیں اور کیا وہاں کے مقامی پکوان واقعی اتنے مزیدار ہوتے ہیں جن کے چرچے ہیں؟

ج: اوہ، کھانوں کی بات مت پوچھیں! اسرائیلی کھانے میری توقعات سے کہیں زیادہ مزیدار اور متنوع نکلے۔ مجھے یاد ہے، جب میں پہلی بار وہاں گئی تو سوچا تھا کہ کیا ہی ملے گا، لیکن وہاں کے مقامی پکوانوں نے میرے دل کو جیت لیا۔ اسرائیل کا کھانا دراصل وہاں کی ثقافتی تنوع کا ہی ایک عکس ہے – آپ کو یہاں مشرق وسطیٰ، بحیرہ روم اور مشرقی یورپ کے ذائقوں کا حسین امتزاج ملے گا۔ فلافل اور شوارما جیسے اسٹریٹ فوڈ تو مشہور ہیں ہی، لیکن میں نے خود تل ابیب کے ایک چھوٹے سے ریستوراں میں ‘شاک شوکا’ (انڈے اور ٹماٹر کی چٹنی کا ایک پکوان) چکھا، جس کا ذائقہ میں آج تک نہیں بھول پائی۔ اس کے علاوہ ‘حمص’ (چنے کا پیسٹ) اور ‘تبولہ’ (سلاد) تو ہر میز کی شان ہوتے ہیں۔ یروشلم میں میں نے ایک مقامی بازار سے تازہ بیک کی ہوئی ‘چلہ’ بریڈ خریدی، جس کی خوشبو اور ذائقہ میرے منہ میں پانی بھر دیتا ہے۔ سمندری غذا بھی یہاں بہت مشہور ہے، خاص طور پر تل ابیب کے ساحلی ریستوراں میں تازی مچھلی کا اپنا ہی لطف ہے۔ سبزیوں اور جڑی بوٹیوں کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے، جو کھانوں کو ایک تازگی اور صحت مند ذائقہ دیتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اسرائیل کا کھانا آپ کے ذائقے کی حس کو بھی ضرور جگمگا دے گا!
اکثر پوچھے جانے والے سوالات
س: اسرائیل کی ثقافتی تنوع کس طرح منفرد ہے اور وہاں مجھے کون سی ثقافتیں دیکھنے کو مل سکتی ہیں؟
ج: میرے پیارے دوستو، اسرائیل کی سب سے دلکش چیز اس کی ثقافتی رنگارنگی ہے۔ یہ کوئی عام جگہ نہیں بلکہ مختلف پس منظر سے آئے ہوئے لوگوں کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ جب میں وہاں تھی، مجھے لگا جیسے میں ایک ہی وقت میں کئی دنیاؤں کا سفر کر رہی ہوں۔ یہاں آپ کو مشرقی یورپ سے آئے یہودیوں کی گہری روایتیں ملیں گی، جن کی عبادت گاہوں میں گونجتی دعائیں اور خاص پکوان آپ کے دل کو چھو لیں گے۔ پھر وہاں یمنی، مراکشی اور ایتھوپیائی یہودی بھی ہیں، جن کے موسیقی، رقص اور لباس ان کی قدیم میراث کی عکاسی کرتے ہیں۔ میں نے یروشلم کی تنگ گلیوں میں چلتے ہوئے عربوں کی مہمان نوازی کا تجربہ کیا، ان کے بازاروں میں پھیلی مصالحوں کی خوشبو آج بھی مجھے یاد ہے۔ تل ابیب میں آپ کو ایک جدید، مغربی طرز کی آزاد خیال ثقافت ملے گی، جہاں نوجوان آرٹسٹ اور کاروباری لوگ نئے خیالات کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ یہ صرف کتابوں میں پڑھنے والی باتیں نہیں، بلکہ میں نے خود محسوس کیا کہ کیسے یہ تمام ثقافتیں ایک دوسرے میں گھل مل کر ایک بالکل نئی، منفرد اسرائیلی شناخت کو جنم دے رہی ہیں۔ یہ تنوع صرف مذہبی نہیں بلکہ کھانے، آرٹ، موسیقی اور روزمرہ کے انداز میں بھی نمایاں ہے، جو آپ کے سفر کو واقعی یادگار بنا دے گا۔
س: اسرائیل میں فنون اور دستکاری کی کیا حیثیت ہے اور کیا وہاں کے مقامی فنکار واقعی تخلیقی ہیں؟
ج: ہاں بالکل! اسرائیل کے فنکار ناقابل یقین حد تک تخلیقی اور باصلاحیت ہیں۔ جب میں نے وہاں کے آرٹ سین کو دیکھا تو میں حیران رہ گئی۔ یروشلم اور صفد جیسی قدیم بستیوں میں آپ کو صدیوں پرانی دستکاری ملے گی، جہاں کاریگر ہاتھ سے بنی جیولری، مذہبی اشیاء اور سیرامکس بناتے ہیں۔ ان کے کام میں ایک روحانی گہرائی ہوتی ہے جو آپ کو کہیں اور نہیں ملے گی۔ مجھے خاص طور پر صفد کے آرٹسٹ کالونی میں گزارا ہوا وقت یاد ہے، جہاں ہر گلی میں ایک آرٹ گیلری تھی اور ہر فنکار اپنی کہانی بیان کر رہا تھا۔ لیکن اس کے برعکس، تل ابیب ایک جدید آرٹ کا مرکز ہے، جہاں جدید آرٹ گیلریاں اور گرافیٹی آرٹسٹ اپنی دیواروں کو کینوس بناتے ہیں۔ میں نے وہاں کے میوزیمز میں مقامی اور بین الاقوامی فنکاروں کے چونکا دینے والے کام دیکھے، جو روایتی اور جدید کا ایک خوبصورت امتزاج پیش کر رہے تھے۔ یہ صرف ماضی کی بات نہیں، بلکہ آج بھی نوجوان فنکار نئے خیالات اور تکنیکوں کے ساتھ تجربات کر رہے ہیں، اور ان کی تخلیقی صلاحیتیں واقعی متاثر کن ہیں۔ میرے نزدیک، اسرائیل فن کے شائقین کے لیے ایک چھپا ہوا خزانہ ہے، جہاں ہر کونے میں ایک نئی فنکارانہ دریافت آپ کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔
س: اسرائیلی کھانوں کی کیا خصوصیات ہیں اور کیا وہاں کے مقامی پکوان واقعی اتنے مزیدار ہوتے ہیں جن کے چرچے ہیں؟
ج: اوہ، کھانوں کی بات مت پوچھیں! اسرائیلی کھانے میری توقعات سے کہیں زیادہ مزیدار اور متنوع نکلے۔ مجھے یاد ہے، جب میں پہلی بار وہاں گئی تو سوچا تھا کہ کیا ہی ملے گا، لیکن وہاں کے مقامی پکوانوں نے میرے دل کو جیت لیا۔ اسرائیل کا کھانا دراصل وہاں کی ثقافتی تنوع کا ہی ایک عکس ہے – آپ کو یہاں مشرق وسطیٰ، بحیرہ روم اور مشرقی یورپ کے ذائقوں کا حسین امتزاج ملے گا۔ فلافل اور شوارما جیسے اسٹریٹ فوڈ تو مشہور ہیں ہی، لیکن میں نے خود تل ابیب کے ایک چھوٹے سے ریستوراں میں ‘شاک شوکا’ (انڈے اور ٹماٹر کی چٹنی کا ایک پکوان) چکھا، جس کا ذائقہ میں آج تک نہیں بھول پائی۔ اس کے علاوہ ‘حمص’ (چنے کا پیسٹ) اور ‘تبولہ’ (سلاد) تو ہر میز کی شان ہوتے ہیں۔ یروشلم میں میں نے ایک مقامی بازار سے تازہ بیک کی ہوئی ‘چلہ’ بریڈ خریدی، جس کی خوشبو اور ذائقہ میرے منہ میں پانی بھر دیتا ہے۔ سمندری غذا بھی یہاں بہت مشہور ہے، خاص طور پر تل ابیب کے ساحلی ریستوراں میں تازی مچھلی کا اپنا ہی لطف ہے۔ سبزیوں اور جڑی بوٹیوں کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے، جو کھانوں کو ایک تازگی اور صحت مند ذائقہ دیتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اسرائیل کا کھانا آپ کے ذائقے کی حس کو بھی ضرور جگمگا دے گا!
اکثر پوچھے جانے والے سوالات
س: اسرائیل کی ثقافتی تنوع کس طرح منفرد ہے اور وہاں مجھے کون سی ثقافتیں دیکھنے کو مل سکتی ہیں؟
ج: میرے پیارے دوستو، اسرائیل کی سب سے دلکش چیز اس کی ثقافتی رنگارنگی ہے۔ یہ کوئی عام جگہ نہیں بلکہ مختلف پس منظر سے آئے ہوئے لوگوں کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ جب میں وہاں تھی، مجھے لگا جیسے میں ایک ہی وقت میں کئی دنیاؤں کا سفر کر رہی ہوں۔ یہاں آپ کو مشرقی یورپ سے آئے یہودیوں کی گہری روایتیں ملیں گی، جن کی عبادت گاہوں میں گونجتی دعائیں اور خاص پکوان آپ کے دل کو چھو لیں گے۔ پھر وہاں یمنی، مراکشی اور ایتھوپیائی یہودی بھی ہیں، جن کے موسیقی، رقص اور لباس ان کی قدیم میراث کی عکاسی کرتے ہیں۔ میں نے یروشلم کی تنگ گلیوں میں چلتے ہوئے عربوں کی مہمان نوازی کا تجربہ کیا، ان کے بازاروں میں پھیلی مصالحوں کی خوشبو آج بھی مجھے یاد ہے۔ تل ابیب میں آپ کو ایک جدید، مغربی طرز کی آزاد خیال ثقافت ملے گی، جہاں نوجوان آرٹسٹ اور کاروباری لوگ نئے خیالات کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ یہ صرف کتابوں میں پڑھنے والی باتیں نہیں، بلکہ میں نے خود محسوس کیا کہ کیسے یہ تمام ثقافتیں ایک دوسرے میں گھل مل کر ایک بالکل نئی، منفرد اسرائیلی شناخت کو جنم دے رہی ہیں۔ یہ تنوع صرف مذہبی نہیں بلکہ کھانے، آرٹ، موسیقی اور روزمرہ کے انداز میں بھی نمایاں ہے، جو آپ کے سفر کو واقعی یادگار بنا دے گا۔
س: اسرائیل میں فنون اور دستکاری کی کیا حیثیت ہے اور کیا وہاں کے مقامی فنکار واقعی تخلیقی ہیں؟
ج: ہاں بالکل! اسرائیل کے فنکار ناقابل یقین حد تک تخلیقی اور باصلاحیت ہیں۔ جب میں نے وہاں کے آرٹ سین کو دیکھا تو میں حیران رہ گئی۔ یروشلم اور صفد جیسی قدیم بستیوں میں آپ کو صدیوں پرانی دستکاری ملے گی، جہاں کاریگر ہاتھ سے بنی جیولری، مذہبی اشیاء اور سیرامکس بناتے ہیں۔ ان کے کام میں ایک روحانی گہرائی ہوتی ہے جو آپ کو کہیں اور نہیں ملے گی۔ مجھے خاص طور پر صفد کے آرٹسٹ کالونی میں گزارا ہوا وقت یاد ہے، جہاں ہر گلی میں ایک آرٹ گیلری تھی اور ہر فنکار اپنی کہانی بیان کر رہا تھا۔ لیکن اس کے برعکس، تل ابیب ایک جدید آرٹ کا مرکز ہے، جہاں جدید آرٹ گیلریاں اور گرافیٹی آرٹسٹ اپنی دیواروں کو کینوس بناتے ہیں۔ میں نے وہاں کے میوزیمز میں مقامی اور بین الاقوامی فنکاروں کے چونکا دینے والے کام دیکھے، جو روایتی اور جدید کا ایک خوبصورت امتزاج پیش کر رہے تھے۔ یہ صرف ماضی کی بات نہیں، بلکہ آج بھی نوجوان فنکار نئے خیالات اور تکنیکوں کے ساتھ تجربات کر رہے ہیں، اور ان کی تخلیقی صلاحیتیں واقعی متاثر کن ہیں۔ میرے نزدیک، اسرائیل فن کے شائقین کے لیے ایک چھپا ہوا خزانہ ہے، جہاں ہر کونے میں ایک نئی فنکارانہ دریافت آپ کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔
س: اسرائیلی کھانوں کی کیا خصوصیات ہیں اور کیا وہاں کے مقامی پکوان واقعی اتنے مزیدار ہوتے ہیں جن کے چرچے ہیں؟
ج: اوہ، کھانوں کی بات مت پوچھیں! اسرائیلی کھانے میری توقعات سے کہیں زیادہ مزیدار اور متنوع نکلے۔ مجھے یاد ہے، جب میں پہلی بار وہاں گئی تو سوچا تھا کہ کیا ہی ملے گا، لیکن وہاں کے مقامی پکوانوں نے میرے دل کو جیت لیا۔ اسرائیل کا کھانا دراصل وہاں کی ثقافتی تنوع کا ہی ایک عکس ہے – آپ کو یہاں مشرق وسطیٰ، بحیرہ روم اور مشرقی یورپ کے ذائقوں کا حسین امتزاج ملے گا۔ فلافل اور شوارما جیسے اسٹریٹ فوڈ تو مشہور ہیں ہی، لیکن میں نے خود تل ابیب کے ایک چھوٹے سے ریستوراں میں ‘شاک شوکا’ (انڈے اور ٹماٹر کی چٹنی کا ایک پکوان) چکھا، جس کا ذائقہ میں آج تک نہیں بھول پائی۔ اس کے علاوہ ‘حمص’ (چنے کا پیسٹ) اور ‘تبولہ’ (سلاد) تو ہر میز کی شان ہوتے ہیں۔ یروشلم میں میں نے ایک مقامی بازار سے تازہ بیک کی ہوئی ‘چلہ’ بریڈ خریدی، جس کی خوشبو اور ذائقہ میرے منہ میں پانی بھر دیتا ہے۔ سمندری غذا بھی یہاں بہت مشہور ہے، خاص طور پر تل ابیب کے ساحلی ریستوراں میں تازی مچھلی کا اپنا ہی لطف ہے۔ سبزیوں اور جڑی بوٹیوں کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے، جو کھانوں کو ایک تازگی اور صحت مند ذائقہ دیتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اسرائیل کا کھانا آپ کے ذائقے کی حس کو بھی ضرور جگمگا دے گا!
اکثر پوچھے جانے والے سوالات
س: اسرائیل کی ثقافتی تنوع کس طرح منفرد ہے اور وہاں مجھے کون سی ثقافتیں دیکھنے کو مل سکتی ہیں؟
ج: میرے پیارے دوستو، اسرائیل کی سب سے دلکش چیز اس کی ثقافتی رنگارنگی ہے۔ یہ کوئی عام جگہ نہیں بلکہ مختلف پس منظر سے آئے ہوئے لوگوں کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ جب میں وہاں تھی، مجھے لگا جیسے میں ایک ہی وقت میں کئی دنیاؤں کا سفر کر رہی ہوں۔ یہاں آپ کو مشرقی یورپ سے آئے یہودیوں کی گہری روایتیں ملیں گی، جن کی عبادت گاہوں میں گونجتی دعائیں اور خاص پکوان آپ کے دل کو چھو لیں گے۔ پھر وہاں یمنی، مراکشی اور ایتھوپیائی یہودی بھی ہیں، جن کے موسیقی، رقص اور لباس ان کی قدیم میراث کی عکاسی کرتے ہیں۔ میں نے یروشلم کی تنگ گلیوں میں چلتے ہوئے عربوں کی مہمان نوازی کا تجربہ کیا، ان کے بازاروں میں پھیلی مصالحوں کی خوشبو آج بھی مجھے یاد ہے۔ تل ابیب میں آپ کو ایک جدید، مغربی طرز کی آزاد خیال ثقافت ملے گی، جہاں نوجوان آرٹسٹ اور کاروباری لوگ نئے خیالات کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ یہ صرف کتابوں میں پڑھنے والی باتیں نہیں، بلکہ میں نے خود محسوس کیا کہ کیسے یہ تمام ثقافتیں ایک دوسرے میں گھل مل کر ایک بالکل نئی، منفرد اسرائیلی شناخت کو جنم دے رہی ہیں۔ یہ تنوع صرف مذہبی نہیں بلکہ کھانے، آرٹ، موسیقی اور روزمرہ کے انداز میں بھی نمایاں ہے، جو آپ کے سفر کو واقعی یادگار بنا دے گا۔
س: اسرائیل میں فنون اور دستکاری کی کیا حیثیت ہے اور کیا وہاں کے مقامی فنکار واقعی تخلیقی ہیں؟
ج: ہاں بالکل! اسرائیل کے فنکار ناقابل یقین حد تک تخلیقی اور باصلاحیت ہیں۔ جب میں نے وہاں کے آرٹ سین کو دیکھا تو میں حیران رہ گئی۔ یروشلم اور صفد جیسی قدیم بستیوں میں آپ کو صدیوں پرانی دستکاری ملے گی، جہاں کاریگر ہاتھ سے بنی جیولری، مذہبی اشیاء اور سیرامکس بناتے ہیں۔ ان کے کام میں ایک روحانی گہرائی ہوتی ہے جو آپ کو کہیں اور نہیں ملے گی۔ مجھے خاص طور پر صفد کے آرٹسٹ کالونی میں گزارا ہوا وقت یاد ہے، جہاں ہر گلی میں ایک آرٹ گیلری تھی اور ہر فنکار اپنی کہانی بیان کر رہا تھا۔ لیکن اس کے برعکس، تل ابیب ایک جدید آرٹ کا مرکز ہے، جہاں جدید آرٹ گیلریاں اور گرافیٹی آرٹسٹ اپنی دیواروں کو کینوس بناتے ہیں۔ میں نے وہاں کے میوزیمز میں مقامی اور بین الاقوامی فنکاروں کے چونکا دینے والے کام دیکھے، جو روایتی اور جدید کا ایک خوبصورت امتزاج پیش کر رہے تھے۔ یہ صرف ماضی کی بات نہیں، بلکہ آج بھی نوجوان فنکار نئے خیالات اور تکنیکوں کے ساتھ تجربات کر رہے ہیں، اور ان کی تخلیقی صلاحیتیں واقعی متاثر کن ہیں۔ میرے نزدیک، اسرائیل فن کے شائقین کے لیے ایک چھپا ہوا خزانہ ہے، جہاں ہر کونے میں ایک نئی فنکارانہ دریافت آپ کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔
س: اسرائیلی کھانوں کی کیا خصوصیات ہیں اور کیا وہاں کے مقامی پکوان واقعی اتنے مزیدار ہوتے ہیں جن کے چرچے ہیں؟
ج: اوہ، کھانوں کی بات مت پوچھیں! اسرائیلی کھانے میری توقعات سے کہیں زیادہ مزیدار اور متنوع نکلے۔ مجھے یاد ہے، جب میں پہلی بار وہاں گئی تو سوچا تھا کہ کیا ہی ملے گا، لیکن وہاں کے مقامی پکوانوں نے میرے دل کو جیت لیا۔ اسرائیل کا کھانا دراصل وہاں کی ثقافتی تنوع کا ہی ایک عکس ہے – آپ کو یہاں مشرق وسطیٰ، بحیرہ روم اور مشرقی یورپ کے ذائقوں کا حسین امتزاج ملے گا۔ فلافل اور شوارما جیسے اسٹریٹ فوڈ تو مشہور ہیں ہی، لیکن میں نے خود تل ابیب کے ایک چھوٹے سے ریستوراں میں ‘شاک شوکا’ (انڈے اور ٹماٹر کی چٹنی کا ایک پکوان) چکھا، جس کا ذائقہ میں آج تک نہیں بھول پائی۔ اس کے علاوہ ‘حمص’ (چنے کا پیسٹ) اور ‘تبولہ’ (سلاد) تو ہر میز کی شان ہوتے ہیں۔ یروشلم میں میں نے ایک مقامی بازار سے تازہ بیک کی ہوئی ‘چلہ’ بریڈ خریدی، جس کی خوشبو اور ذائقہ میرے منہ میں پانی بھر دیتا ہے۔ سمندری غذا بھی یہاں بہت مشہور ہے، خاص طور پر تل ابیب کے ساحلی ریستوراں میں تازی مچھلی کا اپنا ہی لطف ہے۔ سبزیوں اور جڑی بوٹیوں کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے، جو کھانوں کو ایک تازگی اور صحت مند ذائقہ دیتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اسرائیل کا کھانا آپ کے ذائقے کی حس کو بھی ضرور جگمگا دے گا!
اکثر پوچھے جانے والے سوالات
س: اسرائیل کی ثقافتی تنوع کس طرح منفرد ہے اور وہاں مجھے کون سی ثقافتیں دیکھنے کو مل سکتی ہیں؟
ج: میرے پیارے دوستو، اسرائیل کی سب سے دلکش چیز اس کی ثقافتی رنگارنگی ہے۔ یہ کوئی عام جگہ نہیں بلکہ مختلف پس منظر سے آئے ہوئے لوگوں کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ جب میں وہاں تھی، مجھے لگا جیسے میں ایک ہی وقت میں کئی دنیاؤں کا سفر کر رہی ہوں۔ یہاں آپ کو مشرقی یورپ سے آئے یہودیوں کی گہری روایتیں ملیں گی، جن کی عبادت گاہوں میں گونجتی دعائیں اور خاص پکوان آپ کے دل کو چھو لیں گے۔ پھر وہاں یمنی، مراکشی اور ایتھوپیائی یہودی بھی ہیں، جن کے موسیقی، رقص اور لباس ان کی قدیم میراث کی عکاسی کرتے ہیں۔ میں نے یروشلم کی تنگ گلیوں میں چلتے ہوئے عربوں کی مہمان نوازی کا تجربہ کیا، ان کے بازاروں میں پھیلی مصالحوں کی خوشبو آج بھی مجھے یاد ہے۔ تل ابیب میں آپ کو ایک جدید، مغربی طرز کی آزاد خیال ثقافت ملے گی، جہاں نوجوان آرٹسٹ اور کاروباری لوگ نئے خیالات کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ یہ صرف کتابوں میں پڑھنے والی باتیں نہیں، بلکہ میں نے خود محسوس کیا کہ کیسے یہ تمام ثقافتیں ایک دوسرے میں گھل مل کر ایک بالکل نئی، منفرد اسرائیلی شناخت کو جنم دے رہی ہیں۔ یہ تنوع صرف مذہبی نہیں بلکہ کھانے، آرٹ، موسیقی اور روزمرہ کے انداز میں بھی نمایاں ہے، جو آپ کے سفر کو واقعی یادگار بنا دے گا۔
س: اسرائیل میں فنون اور دستکاری کی کیا حیثیت ہے اور کیا وہاں کے مقامی فنکار واقعی تخلیقی ہیں؟
ج: ہاں بالکل! اسرائیل کے فنکار ناقابل یقین حد تک تخلیقی اور باصلاحیت ہیں۔ جب میں نے وہاں کے آرٹ سین کو دیکھا تو میں حیران رہ گئی۔ یروشلم اور صفد جیسی قدیم بستیوں میں آپ کو صدیوں پرانی دستکاری ملے گی، جہاں کاریگر ہاتھ سے بنی جیولری، مذہبی اشیاء اور سیرامکس بناتے ہیں۔ ان کے کام میں ایک روحانی گہرائی ہوتی ہے جو آپ کو کہیں اور نہیں ملے گی۔ مجھے خاص طور پر صفد کے آرٹسٹ کالونی میں گزارا ہوا وقت یاد ہے، جہاں ہر گلی میں ایک آرٹ گیلری تھی اور ہر فنکار اپنی کہانی بیان کر رہا تھا۔ لیکن اس کے برعکس، تل ابیب ایک جدید آرٹ کا مرکز ہے، جہاں جدید آرٹ گیلریاں اور گرافیٹی آرٹسٹ اپنی دیواروں کو کینوس بناتے ہیں۔ میں نے وہاں کے میوزیمز میں مقامی اور بین الاقوامی فنکاروں کے چونکا دینے والے کام دیکھے، جو روایتی اور جدید کا ایک خوبصورت امتزاج پیش کر رہے تھے۔ یہ صرف ماضی کی بات نہیں، بلکہ آج بھی نوجوان فنکار نئے خیالات اور تکنیکوں کے ساتھ تجربات کر رہے ہیں، اور ان کی تخلیقی صلاحیتیں واقعی متاثر کن ہیں۔ میرے نزدیک، اسرائیل فن کے شائقین کے لیے ایک چھپا ہوا خزانہ ہے، جہاں ہر کونے میں ایک نئی فنکارانہ دریافت آپ کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔
س: اسرائیلی کھانوں کی کیا خصوصیات ہیں اور کیا وہاں کے مقامی پکوان واقعی اتنے مزیدار ہوتے ہیں جن کے چرچے ہیں؟
ج: اوہ، کھانوں کی بات مت پوچھیں! اسرائیلی کھانے میری توقعات سے کہیں زیادہ مزیدار اور متنوع نکلے۔ مجھے یاد ہے، جب میں پہلی بار وہاں گئی تو سوچا تھا کہ کیا ہی ملے گا، لیکن وہاں کے مقامی پکوانوں نے میرے دل کو جیت لیا۔ اسرائیل کا کھانا دراصل وہاں کی ثقافتی تنوع کا ہی ایک عکس ہے – آپ کو یہاں مشرق وسطیٰ، بحیرہ روم اور مشرقی یورپ کے ذائقوں کا حسین امتزاج ملے گا۔ فلافل اور شوارما جیسے اسٹریٹ فوڈ تو مشہور ہیں ہی، لیکن میں نے خود تل ابیب کے ایک چھوٹے سے ریستوراں میں ‘شاک شوکا’ (انڈے اور ٹماٹر کی چٹنی کا ایک پکوان) چکھا، جس کا ذائقہ میں آج تک نہیں بھول پائی۔ اس کے علاوہ ‘حمص’ (چنے کا پیسٹ) اور ‘تبولہ’ (سلاد) تو ہر میز کی شان ہوتے ہیں۔ یروشلم میں میں نے ایک مقامی بازار سے تازہ بیک کی ہوئی ‘چلہ’ بریڈ خریدی، جس کی خوشبو اور ذائقہ میرے منہ میں پانی بھر دیتا ہے۔ سمندری غذا بھی یہاں بہت مشہور ہے، خاص طور پر تل ابیب کے ساحلی ریستوراں میں تازی مچھلی کا اپنا ہی لطف ہے۔ سبزیوں اور جڑی بوٹیوں کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے، جو کھانوں کو ایک تازگی اور صحت مند ذائقہ دیتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اسرائیل کا کھانا آپ کے ذائقے کی حس کو بھی ضرور جگمگا دے گا!
اکثر پوچھے جانے والے سوالات
س: اسرائیل کی ثقافتی تنوع کس طرح منفرد ہے اور وہاں مجھے کون سی ثقافتیں دیکھنے کو مل سکتی ہیں؟
ج: میرے پیارے دوستو، اسرائیل کی سب سے دلکش چیز اس کی ثقافتی رنگارنگی ہے۔ یہ کوئی عام جگہ نہیں بلکہ مختلف پس منظر سے آئے ہوئے لوگوں کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ جب میں وہاں تھی، مجھے لگا جیسے میں ایک ہی وقت میں کئی دنیاؤں کا سفر کر رہی ہوں۔ یہاں آپ کو مشرقی یورپ سے آئے یہودیوں کی گہری روایتیں ملیں گی، جن کی عبادت گاہوں میں گونجتی دعائیں اور خاص پکوان آپ کے دل کو چھو لیں گے۔ پھر وہاں یمنی، مراکشی اور ایتھوپیائی یہودی بھی ہیں، جن کے موسیقی، رقص اور لباس ان کی قدیم میراث کی عکاسی کرتے ہیں۔ میں نے یروشلم کی تنگ گلیوں میں چلتے ہوئے عربوں کی مہمان نوازی کا تجربہ کیا، ان کے بازاروں میں پھیلی مصالحوں کی خوشبو آج بھی مجھے یاد ہے۔ تل ابیب میں آپ کو ایک جدید، مغربی طرز کی آزاد خیال ثقافت ملے گی، جہاں نوجوان آرٹسٹ اور کاروباری لوگ نئے خیالات کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ یہ صرف کتابوں میں پڑھنے والی باتیں نہیں، بلکہ میں نے خود محسوس کیا کہ کیسے یہ تمام ثقافتیں ایک دوسرے میں گھل مل کر ایک بالکل نئی، منفرد اسرائیلی شناخت کو جنم دے رہی ہیں۔ یہ تنوع صرف مذہبی نہیں بلکہ کھانے، آرٹ، موسیقی اور روزمرہ کے انداز میں بھی نمایاں ہے، جو آپ کے سفر کو واقعی یادگار بنا دے گا۔
س: اسرائیل میں فنون اور دستکاری کی کیا حیثیت ہے اور کیا وہاں کے مقامی فنکار واقعی تخلیقی ہیں؟
ج: ہاں بالکل! اسرائیل کے فنکار ناقابل یقین حد تک تخلیقی اور باصلاحیت ہیں۔ جب میں نے وہاں کے آرٹ سین کو دیکھا تو میں حیران رہ گئی۔ یروشلم اور صفد جیسی قدیم بستیوں میں آپ کو صدیوں پرانی دستکاری ملے گی، جہاں کاریگر ہاتھ سے بنی جیولری، مذہبی اشیاء اور سیرامکس بناتے ہیں۔ ان کے کام میں ایک روحانی گہرائی ہوتی ہے جو آپ کو کہیں اور نہیں ملے گی۔ مجھے خاص طور پر صفد کے آرٹسٹ کالونی میں گزارا ہوا وقت یاد ہے، جہاں ہر گلی میں ایک آرٹ گیلری تھی اور ہر فنکار اپنی کہانی بیان کر رہا تھا۔ لیکن اس کے برعکس، تل ابیب ایک جدید آرٹ کا مرکز ہے، جہاں جدید آرٹ گیلریاں اور گرافیٹی آرٹسٹ اپنی دیواروں کو کینوس بناتے ہیں۔ میں نے وہاں کے میوزیمز میں مقامی اور بین الاقوامی فنکاروں کے چونکا دینے والے کام دیکھے، جو روایتی اور جدید کا ایک خوبصورت امتزاج پیش کر رہے تھے۔ یہ صرف ماضی کی بات نہیں، بلکہ آج بھی نوجوان فنکار نئے خیالات اور تکنیکوں کے ساتھ تجربات کر رہے ہیں، اور ان کی تخلیقی صلاحیتیں واقعی متاثر کن ہیں۔ میرے نزدیک، اسرائیل فن کے شائقین کے لیے ایک چھپا ہوا خزانہ ہے، جہاں ہر کونے میں ایک نئی فنکارانہ دریافت آپ کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔
س: اسرائیلی کھانوں کی کیا خصوصیات ہیں اور کیا وہاں کے مقامی پکوان واقعی اتنے مزیدار ہوتے ہیں جن کے چرچے ہیں؟
ج: اوہ، کھانوں کی بات مت پوچھیں! اسرائیلی کھانے میری توقعات سے کہیں زیادہ مزیدار اور متنوع نکلے۔ مجھے یاد ہے، جب میں پہلی بار وہاں گئی تو سوچا تھا کہ کیا ہی ملے گا، لیکن وہاں کے مقامی پکوانوں نے میرے دل کو جیت لیا۔ اسرائیل کا کھانا دراصل وہاں کی ثقافتی تنوع کا ہی ایک عکس ہے – آپ کو یہاں مشرق وسطیٰ، بحیرہ روم اور مشرقی یورپ کے ذائقوں کا حسین امتزاج ملے گا۔ فلافل اور شوارما جیسے اسٹریٹ فوڈ تو مشہور ہیں ہی، لیکن میں نے خود تل ابیب کے ایک چھوٹے سے ریستوراں میں ‘شاک شوکا’ (انڈے اور ٹماٹر کی چٹنی کا ایک پکوان) چکھا، جس کا ذائقہ میں آج تک نہیں بھول پائی۔ اس کے علاوہ ‘حمص’ (چنے کا پیسٹ) اور ‘تبولہ’ (سلاد) تو ہر میز کی شان ہوتے ہیں۔ یروشلم میں میں نے ایک مقامی بازار سے تازہ بیک کی ہوئی ‘چلہ’ بریڈ خریدی، جس کی خوشبو اور ذائقہ میرے منہ میں پانی بھر دیتا ہے۔ سمندری غذا بھی یہاں بہت مشہور ہے، خاص طور پر تل ابیب کے ساحلی ریستوراں میں تازی مچھلی کا اپنا ہی لطف ہے۔ سبزیوں اور جڑی بوٹیوں کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے، جو کھانوں کو ایک تازگی اور صحت مند ذائقہ دیتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اسرائیل کا کھانا آپ کے ذائقے کی حس کو بھی ضرور جگمگا دے گا!






