عالمی میڈیا اور اسرائیل: وہ تعلق جو آپ کو حیران کر دے گا

webmaster

Image Prompt 1: The Fabricated Narrative**

ہم سب جانتے ہیں کہ خبروں کی دنیا کتنی تیزی سے بدل رہی ہے۔ جب سے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے عام لوگوں تک معلومات پہنچانا شروع کی ہے، روایتی میڈیا کے کردار پر گہرے سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر محسوس کیا ہے کہ کس طرح ایک خبر کا ایک ہی پہلو مختلف ذرائع سے بالکل مختلف انداز میں پیش کیا جاتا ہے، اور یہ بات ہمیشہ مجھے سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ خاص طور پر جب بات اسرائیل اور دنیا کے بڑے خبر رساں اداروں کے درمیان تعلقات کی آتی ہے، تو کہانی اور بھی پیچیدہ ہو جاتی ہے۔ مجھے یہ بات ہمیشہ حیران کرتی ہے کہ کس طرح عالمی میڈیا ایک خاص بیانیہ (narrative) پیش کرتا ہے، اور اس کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ روایتی میڈیا کے وسائل اور رسائی بہت وسیع ہے، جبکہ دوسری طرف نئے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، جن میں شہری صحافت (citizen journalism) بھی شامل ہے، حقائق کو تیزی سے سامنے لا رہے ہیں۔ موجودہ دور میں غلط معلومات (misinformation) اور فرضی خبروں (fake news) کا سیلاب ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے، اور ایسے میں بڑے میڈیا ہاؤسز کا اسرائیل سے متعلق خبروں پر باہمی تعاون کس قدر اہم ہے، یہ جاننا دلچسپ ہوگا۔ کیا یہ تعاون شفافیت کو بڑھاتا ہے یا کسی خاص نقطہ نظر کو تقویت دیتا ہے؟ یہ سوال میرے ذہن میں اکثر اٹھتا ہے۔آئیے ذیل کے مضمون میں مزید تفصیلات جانتے ہیں۔

میڈیا کا بیانیہ اور عوامی تاثر کی تشکیل

عالمی - 이미지 1
جب ہم خبروں پر نظر ڈالتے ہیں تو اکثر یہ سوال میرے ذہن میں ابھرتا ہے کہ ایک ہی واقعے کو مختلف میڈیا ہاؤسز کس طرح پیش کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار جب میں نے اسرائیل-فلسطین تنازعے سے متعلق کوئی خبر پڑھی تو مجھے لگا کہ ایک فریق کو مکمل طور پر مظلوم اور دوسرے کو مکمل طور پر ظالم دکھایا جا رہا تھا، اور پھر جب میں نے کسی اور ذرائع سے وہی خبر پڑھی تو صورتحال بالکل الٹ لگ رہی تھی۔ یہ بات بہت گہری ہے کہ کیسے بڑے عالمی خبر رساں ادارے اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ یہ محض خبر دینا نہیں بلکہ عوامی رائے کو ایک خاص سمت میں دھکیلنا ہوتا ہے، اور یہ ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے حساس معاملات میں، جہاں ہر لفظ کے گہرے اثرات ہوتے ہیں، یہ بیانیہ سازی اور بھی خطرناک ہو جاتی ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے ایک غلط یا تعصب پر مبنی خبر نے پورے معاشرے میں تقسیم پیدا کر دی تھی۔ میڈیا کے بیانیہ سازی کی یہ طاقت معاشرتی اور سیاسی ڈھانچے پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔

1. ذرائع اور خبروں کا انتخاب

میرے تجربے کے مطابق، میڈیا ہاؤسز خبروں کے ذرائع کے انتخاب میں بہت محتاط رہتے ہیں۔ وہ کن رپورٹرز کو بھیجتے ہیں، کن شخصیات کا انٹرویو کرتے ہیں، اور کن تصاویر یا ویڈیوز کو نشر کرتے ہیں، یہ سب مل کر ایک خاص قسم کا تاثر پیدا کرتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے ایک اسرائیلی حملے کی کوریج اس انداز میں کی کہ اس نے صرف اسرائیل کے حفاظتی اقدامات پر زور دیا، جبکہ متاثرہ فریق کی مشکلات کو تقریباً نظر انداز کر دیا۔ مجھے اس وقت یہ بات دل سے بری لگی کہ یہ یک طرفہ رپورٹنگ ہے اور یہ صحافت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ خبروں کا انتخاب بھی ایک بہت بڑی گیم ہے، کون سی خبر کو نمایاں کیا جائے گا اور کون سی کو پس پشت ڈال دیا جائے گا، اس پر بہت سے عوامل اثر انداز ہوتے ہیں جن میں سے ایک اہم عامل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس خبر سے کس کو کتنا فائدہ یا نقصان ہو گا۔

2. الفاظ کا چناؤ اور ان کی تاثیر

مجھے ہمیشہ یہ بات حیران کرتی ہے کہ ایک ہی واقعے کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کا چناؤ کتنا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، “دہشت گرد” اور “مجاہد”، یا “دفاعی کارروائی” اور “جارحیت” جیسے الفاظ، جب کسی خبر میں استعمال ہوتے ہیں تو وہ قارئین یا ناظرین کے ذہن میں مکمل طور پر مختلف تصویر بناتے ہیں۔ ایک بار میں نے ایک رپورٹ پڑھی تھی جہاں اسرائیلی افواج کی کارروائی کو “دہشت گردی کے خلاف جنگ” کا حصہ قرار دیا گیا تھا، جبکہ اس کے برعکس ایک دوسری رپورٹ میں اسی کارروائی کو “بے گناہ شہریوں پر حملہ” کہا گیا تھا۔ یہ الفاظ کا ہی تو جادو ہے جو ہمارے ذہنوں میں حقائق کو تبدیل کر دیتا ہے۔ مجھے یہ بات ہمیشہ جھنجھوڑتی ہے کہ کیا ہم صرف وہ سن رہے ہیں جو ہمیں سنوایا جا رہا ہے، یا واقعی حقیقت تک پہنچ پا رہے ہیں؟ یہ الفاظ کا چناؤ ہی ہے جو ہمارے احساسات اور خیالات کو ایک خاص رخ دیتا ہے۔

عالمی میڈیا اداروں کا اسرائیلی حکومت سے تعاون

جب ہم عالمی میڈیا اداروں اور اسرائیلی حکومت کے درمیان تعلقات پر بات کرتے ہیں، تو مجھے اکثر ایک عجیب سی کشمکش محسوس ہوتی ہے۔ ایک طرف آزاد صحافت کے دعوے ہیں اور دوسری طرف کچھ ایسے اشارے جو مجھے یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا کہیں پر کوئی خفیہ تعاون تو نہیں؟ میں نے ذاتی طور پر دیکھا ہے کہ کس طرح کچھ بڑے بین الاقوامی خبر رساں ادارے ایسے حساس معاملات پر ایک خاص زاویے سے رپورٹنگ کرتے ہیں جو بظاہر اسرائیلی نقطہ نظر کی حمایت کرتا نظر آتا ہے۔ مجھے یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ بعض اوقات حقائق کو اس طرح سے پیش کیا جاتا ہے کہ وہ ایک فریق کے بیانیے کو مضبوط کرتے ہیں۔ یہ صرف رپورٹس کی بات نہیں، بلکہ پریس ٹرپس، میڈیا ورکشاپس، اور بعض اوقات صحافیوں کے لیے مخصوص سہولیات بھی اس تعلق کو مزید گہرا کر سکتی ہیں۔ یہ تعاون بظاہر معلومات کے تبادلے کے لیے ہوتا ہے، لیکن اس کے گہرے اثرات صحافتی آزادی اور غیر جانبداری پر بھی پڑ سکتے ہیں۔

1. اطلاعات تک رسائی اور حکومتی اثر و رسوخ

میرا ذاتی خیال ہے کہ میڈیا اداروں کو خبروں کے لیے حکومتی ذرائع پر انحصار کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر حساس علاقوں میں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں نے ایک ایسے صحافی کا انٹرویو دیکھا تھا جو بتا رہا تھا کہ اسرائیل میں کچھ علاقوں تک رسائی کے لیے حکومت کی اجازت لازمی ہوتی ہے، اور اس اجازت کے بدلے انہیں کچھ “قواعد و ضوابط” پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ مجھے یہ سن کر بہت پریشانی ہوئی کہ یہ تو صحافت کی آزادی پر سمجھوتہ ہے۔ جب حکومتی ذرائع سے معلومات فراہم کی جاتی ہیں، تو ان میں غیر اعلانیہ طور پر کچھ شرائط بھی شامل ہو سکتی ہیں، جو خبر کی نوعیت اور اس کے پیش کرنے کے انداز کو متاثر کرتی ہیں۔ یہ صورتحال صحافیوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، کیونکہ انہیں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور سچائی کو پیش کرنے کے درمیان توازن رکھنا پڑتا ہے۔

2. بیانیہ سازی میں مشترکہ کوششیں

مجھے ایسا لگتا ہے کہ بعض اوقات عالمی میڈیا اور اسرائیلی حکومت کے درمیان بیانیہ سازی کے لیے ایک غیر اعلانیہ تعاون ہوتا ہے۔ یہ کوئی باقاعدہ معاہدہ نہیں ہوتا، لیکن حالات اور حقائق کو اس طرح سے پیش کیا جاتا ہے کہ وہ ایک خاص بیانیے کو تقویت دیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب بھی کوئی بڑا واقعہ پیش آتا ہے تو کچھ مخصوص اصطلاحات اور فقرے تقریباً ہر بڑے بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ ایک اتفاق نہیں ہو سکتا، بلکہ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شاید کوئی ہم آہنگی موجود ہے۔ مجھے یہ بات ہمیشہ تکلیف دیتی ہے کہ حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا جائے اور لوگوں کی سوچ کو ایک خاص سمت میں موڑا جائے۔ یہ عمل نہ صرف صحافت کے اصولوں کے خلاف ہے بلکہ عوام کے حق جاننے کی آزادی کو بھی متاثر کرتا ہے۔

ڈیجیٹل دور میں خبروں کے چیلنجز اور حقائق کا دھندلا پن

ہم آج ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جہاں معلومات کا سیلاب ہے، اور اس سیلاب میں سچ اور جھوٹ کا فرق کرنا ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے جیسے انٹرنیٹ پر معلومات کی بہتات بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے حقائق کا دھندلا پن بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک طرف جہاں روایتی میڈیا اپنے مخصوص مفادات کی وجہ سے تعصب کا شکار ہوتا ہے، وہیں دوسری طرف سوشل میڈیا پر ہر کوئی صحافی بن کر بیٹھا ہے، اور وہاں بغیر تحقیق کے ہر طرح کی معلومات شیئر کی جاتی ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر تشویش ہوتی ہے کہ کیسے ایک غلط خبر چند منٹوں میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے اور اسے روکنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال اس وقت اور زیادہ پیچیدہ ہو جاتی ہے جب کسی حساس معاملے جیسے کہ اسرائیل کے حوالے سے خبریں گردش کرتی ہیں، جہاں فریقین کے درمیان پہلے ہی بہت کشیدگی موجود ہوتی ہے۔

1. غلط معلومات (Misinformation) اور فرضی خبروں (Fake News) کا سیلاب

میں نے خود کئی بار دیکھا ہے کہ کس طرح ایک تصویر یا ویڈیو کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیا جاتا ہے اور اسے بالکل غلط واقعے سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار ایک پرانی تصویر کو ایک نئے واقعے سے منسوب کر کے سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا تھا، اور جب تک حقیقت سامنے آئی تب تک لوگ اس پر یقین کر چکے تھے۔ یہ فرضی خبریں اتنی تیزی سے پھیلتی ہیں کہ ان کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر اسرائیل سے متعلق خبروں میں یہ چیز بہت عام ہے جہاں دونوں فریقین سے متعلق غلط معلومات پھیلا کر عوامی رائے کو متاثر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مجھے اس صورتحال پر ہمیشہ دکھ ہوتا ہے کہ لوگ سچ کو پہچاننے کی بجائے جذباتی ردعمل کا شکار ہو جاتے ہیں۔

2. شہری صحافت (Citizen Journalism) کی اہمیت اور اس کے نقصانات

ایک طرف شہری صحافت نے ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ ہر شخص اپنے فون سے دنیا کو خبریں دے سکتا ہے، اور مجھے یہ بات بہت پسند ہے۔ میں نے خود کئی ایسے ویڈیوز دیکھے ہیں جو بڑے میڈیا ہاؤسز نے کبھی نہیں دکھائے، لیکن عام لوگوں نے انہیں ریکارڈ کر کے وائرل کر دیا۔ یہ ایک طرح سے آزادئ اظہار اور سچائی تک رسائی کا ایک نیا راستہ ہے۔ لیکن دوسری طرف، اس کے اپنے نقصانات بھی ہیں۔ مجھے اس بات کی فکر رہتی ہے کہ ہر شخص کے پاس صحافت کی اخلاقیات اور تحقیق کا طریقہ کار نہیں ہوتا۔ نتیجے کے طور پر، بہت سی غیر مصدقہ اور غلط معلومات بھی وائرل ہو جاتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ شہری صحافت ایک دو دھاری تلوار ہے، جو فائدہ بھی پہنچا سکتی ہے اور نقصان بھی۔

عوامی تاثر پر میڈیا کے تعصبات کا اثر

میڈیا کے تعصبات کا عوامی تاثر پر کتنا گہرا اثر ہوتا ہے، یہ ایک ایسا سوال ہے جو مجھے اکثر پریشان کرتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں چھوٹا تھا تو میں خبروں کو بالکل سچ مانتا تھا، مجھے لگتا تھا کہ جو کچھ ٹی وی پر دکھایا جا رہا ہے وہ پتھر کی لکیر ہے۔ لیکن جیسے جیسے میں بڑا ہوا اور دنیا کو سمجھا، مجھے احساس ہوا کہ خبروں میں بھی ایک خاص “زاویہ” ہوتا ہے۔ اور یہ زاویہ ہمارے ذہنوں میں لوگوں، واقعات اور ممالک کے بارے میں ایک خاص تصویر بناتا ہے۔ خاص طور پر اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کے تنازعات کے حوالے سے، میں نے ذاتی طور پر دیکھا ہے کہ کس طرح ایک متعصبانہ کوریج نے معاشرے میں نفرت اور تقسیم کو ہوا دی ہے۔ لوگ صرف وہی سنتے اور دیکھتے ہیں جو انہیں دکھایا جاتا ہے، اور اس کے نتیجے میں ان کے خیالات اور نظریات بھی اسی سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔ یہ صرف معلومات کی ترسیل نہیں، یہ ہمارے اجتماعی شعور کی تشکیل ہے، اور جب یہ تشکیل تعصب پر مبنی ہو تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔

1. شناخت اور ہمدردی کی تشکیل

میڈیا کی کوریج ہمارے ذہنوں میں یہ طے کرتی ہے کہ کون مظلوم ہے اور کون ظالم، کس سے ہمدردی رکھنی ہے اور کس سے نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار ایک خبر میں فلسطینیوں کو صرف “پتھر پھینکنے والے” کے طور پر پیش کیا گیا، جب کہ ان کے پیچھے کی پوری کہانی، ان کی محرومیاں اور مشکلات کو نظر انداز کر دیا گیا۔ مجھے یہ دیکھ کر دل میں تکلیف ہوئی کہ کیسے میڈیا ایک پوری قوم کی شناخت کو محدود کر کے پیش کر سکتا ہے۔ اسی طرح، اسرائیلیوں کو صرف “محافظ” کے طور پر دکھایا جاتا ہے، جب کہ ان کے اعمال کے پیچھے کی انسانی قیمت کو کم کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ شناخت کی تشکیل، جو میڈیا کرتا ہے، بہت خطرناک ہے کیونکہ یہ ہمیں ایک دوسرے سے دور کرتی ہے اور ہمدردی کے جذبات کو کمزور کرتی ہے۔

2. سیاسی اور سفارتی تعلقات پر اثرات

میڈیا کے تعصبات کا اثر صرف عوامی رائے پر ہی نہیں ہوتا، بلکہ اس کے گہرے اثرات بین الاقوامی سیاسی اور سفارتی تعلقات پر بھی پڑتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب کوئی بڑا واقعہ ہوتا ہے اور عالمی میڈیا ایک خاص انداز سے رپورٹ کرتا ہے، تو اس کے بعد مختلف ممالک کے سفارتی بیانات اور ردعمل بھی اسی رخ میں ڈھل جاتے ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ کیسے میڈیا کی ایک رپورٹ عالمی سطح پر تناؤ کو بڑھا سکتی ہے یا کم کر سکتی ہے۔ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے، لیکن کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ اس ذمہ داری کو ٹھیک سے نبھایا نہیں جاتا۔ نیچے دی گئی جدول میں چند مثالیں پیش کی گئی ہیں کہ کس طرح مختلف میڈیا ہاؤسز مخصوص واقعات کو پیش کرتے ہیں، جس سے ان کے بیانیے کی نوعیت واضح ہوتی ہے۔

واقعہ روایتی عالمی میڈیا کا بیانیہ متبادل یا آزاد ذرائع کا بیانیہ
حماس کا حملہ دہشت گردانہ حملہ، شہریوں پر بلا امتیاز فائرنگ، اسرائیل کے دفاع کا حق مقبوضہ علاقوں میں طویل عرصے سے جاری مزاحمت کا ردعمل، فوجی اہداف پر حملہ، فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع
اسرائیلی جوابی کارروائی دفاعی آپریشن، دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا، سویلین ہلاکتوں پر افسوس مظلوم آبادی پر بلا امتیاز حملے، جنگی جرائم، عالمی قوانین کی خلاف ورزی
فلسطینی مہاجرین جنگ کی وجہ سے بے گھر ہونے والے لوگ، انسانی بحران طاقت کے زور پر بے دخل کیے گئے، نسل کشی کی سازش، واپسی کا حق

مستقبل کی صحافت: شفافیت اور ذمہ داری کی اہمیت

آگے چل کر صحافت کا مستقبل کیسا ہوگا، یہ ایک ایسا سوال ہے جو میرے ذہن میں ہمیشہ رہتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اب وہ وقت آ گیا ہے جب میڈیا کو اپنی ذمہ داریوں کو نئے سرے سے پہچاننا ہوگا۔ جس طرح سے معلومات کی دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، اور جس طرح سے فرضی خبروں کا راج ہے، ایسے میں شفافیت اور ذمہ داری کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر صحافت کو اپنی ساکھ برقرار رکھنی ہے، تو اسے غیر جانبداری اور سچائی کے اصولوں پر سختی سے قائم رہنا ہوگا۔ یہ صرف معلومات فراہم کرنا نہیں، بلکہ حقیقت کی جستجو اور عوام کو باخبر کرنے کا ایک مقدس فریضہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ مستقبل میں ہمیں ایسی صحافت دیکھنے کو ملے گی جو ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہوگی اور صرف حقائق پر مبنی ہوگی۔

1. حقائق کی تصدیق اور رپورٹنگ میں احتیاط

مجھے لگتا ہے کہ سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ہر خبر کو شیئر کرنے سے پہلے اس کی اچھی طرح تصدیق کی جائے۔ میں نے ذاتی طور پر دیکھا ہے کہ کیسے ایک چھوٹی سی غلطی بھی ایک بڑی غلط فہمی کا باعث بن سکتی ہے۔ صحافیوں کو اب پہلے سے کہیں زیادہ محتاط رہنا ہوگا اور یہ یقینی بنانا ہوگا کہ جو معلومات وہ فراہم کر رہے ہیں وہ مکمل طور پر درست ہے۔ خاص طور پر حساس معاملات میں، جہاں جذباتی ردعمل بہت شدید ہوتا ہے، وہاں حقائق کی تصدیق کی اہمیت دوگنی ہو جاتی ہے۔ مجھے یہ بات ہمیشہ اچھی لگتی ہے جب کوئی صحافی یہ کہے کہ “ہم نے ابھی اس خبر کی تصدیق نہیں کی ہے”، کیونکہ یہ ایمانداری کی علامت ہے۔

2. متنوع آوازوں اور نقطہ نظر کو شامل کرنا

مجھے یہ بات بہت اچھی لگتی ہے جب کسی خبر میں تمام فریقین کے نقطہ نظر کو شامل کیا جاتا ہے۔ یہ صحافت کی سب سے خوبصورت شکل ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ جب میڈیا صرف ایک طرف کی کہانی سناتا ہے تو لوگ دوسری طرف کے بارے میں کچھ نہیں جان پاتے، اور پھر وہ تعصب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ مستقبل میں صحافی مختلف کمیونٹیز، گروہوں اور افراد کی آوازوں کو شامل کریں گے تاکہ ایک مکمل تصویر پیش کی جا سکے، نہ کہ ایک ٹکڑا۔ یہ نہ صرف صحافت کو زیادہ قابل اعتماد بنائے گا بلکہ یہ ہمارے معاشروں کو بھی زیادہ ہم آہنگ بنائے گا۔

ختتامی کلمات

آخر میں، مجھے یہ بات کہنا ہے کہ میڈیا کی طاقت کو کبھی کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ صرف حقائق کو پیش نہیں کرتا بلکہ ان کی تشکیل بھی کرتا ہے، اور خاص طور پر مشرق وسطیٰ جیسے حساس علاقوں میں اس کا اثر بہت گہرا ہوتا ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم خبروں کو تنقیدی نظر سے دیکھیں، ان کی تصدیق کریں اور صرف ایک نقطہ نظر پر انحصار نہ کریں۔ مجھے امید ہے کہ صحافت کا مستقبل شفافیت اور دیانت داری پر مبنی ہوگا، تاکہ ہم سچائی کے زیادہ قریب پہنچ سکیں۔

مفید معلومات

1. مختلف ذرائع سے خبریں پڑھیں: صرف ایک میڈیا ہاؤس پر انحصار کرنے کے بجائے، مختلف مقامی اور بین الاقوامی ذرائع سے خبریں پڑھ کر ایک وسیع تر تصویر حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

2. حقائق کی تصدیق کریں: کسی بھی خبر پر یقین کرنے یا اسے شیئر کرنے سے پہلے، ہمیشہ اس کے حقائق کی تصدیق کریں۔ کئی فیکٹ چیکنگ ویب سائٹس دستیاب ہیں۔

3. تعصب کو پہچانیں: خبروں میں استعمال ہونے والے الفاظ، تصاویر اور لہجے پر غور کریں تاکہ آپ میڈیا کے ممکنہ تعصب کو پہچان سکیں۔ کیا ایک فریق کو مسلسل منفی اور دوسرے کو مثبت دکھایا جا رہا ہے؟

4. آزاد صحافت کی حمایت کریں: ایسے صحافتی اداروں اور افراد کی حمایت کریں جو غیر جانبداری اور سچائی کو ترجیح دیتے ہیں، چاہے ان کی آوازیں کم سنی جاتی ہوں۔

5. اپنی تنقیدی سوچ کو پروان چڑھائیں: یہ سوال کریں کہ خبر کیوں اور کیسے پیش کی جا رہی ہے۔ معلومات کو قبول کرنے سے پہلے ہمیشہ اپنے ذہن میں تجزیہ کرنے کی عادت ڈالیں۔

اہم نکات کا خلاصہ

میڈیا کا بیانیہ عوامی تاثر کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ الفاظ کا چناؤ اور خبروں کے ذرائع کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ عالمی میڈیا کے ادارے، خاص طور پر حساس معاملات میں، اسرائیلی حکومت کے ساتھ بظاہر غیر اعلانیہ تعاون کرتے نظر آتے ہیں، جس سے اطلاعات تک رسائی اور بیانیہ سازی متاثر ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل دور نے غلط معلومات اور فرضی خبروں کا سیلاب لایا ہے، اور شہری صحافت کے جہاں فوائد ہیں وہیں اس کے نقصانات بھی ہیں۔ ان تمام عوامل کا براہ راست اثر عوامی تاثر اور شناخت کی تشکیل پر پڑتا ہے، جو سیاسی اور سفارتی تعلقات پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ مستقبل کی صحافت کے لیے شفافیت، حقائق کی تصدیق اور متنوع آوازوں کو شامل کرنا انتہائی ضروری ہے۔

اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖

س: خبروں کی دنیا میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے کردار نے روایتی میڈیا کے فرائض اور اہمیت کو کس طرح متاثر کیا ہے، خاص طور پر اسرائیل جیسے حساس معاملات کی رپورٹنگ میں؟

ج: میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے خبروں کی ترسیل کا منظرنامہ یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایک وقت تھا جب روایتی میڈیا ہاؤسز، جیسے اخبارات اور ٹی وی چینلز، معلومات کے واحد ذریعہ تھے اور ان کے پاس خبر کو “گیٹ کیپر” کرنے کی طاقت تھی۔ لیکن اب، جب سے ہر کوئی اپنے فون پر خبر بنا اور شیئر کر سکتا ہے، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ روایتی میڈیا کی وہ بالادستی کم ہو گئی ہے۔ خاص طور پر جب بات اسرائیل جیسے حساس موضوعات کی آتی ہے، تو میں نے دیکھا ہے کہ ایک ہی واقعہ کے کئی مختلف پہلو سوشل میڈیا پر فوراً وائرل ہو جاتے ہیں، جو روایتی میڈیا کے بیانیے کو چیلنج کرتے ہیں۔ یہ بات مجھے ہمیشہ پریشان کرتی ہے کہ اب کون سی خبر زیادہ قابل بھروسہ ہے – وہ جو بڑے چینل پر چل رہی ہے یا وہ جو کسی عام شہری نے موقع پر بنا کر شیئر کر دی ہے؟ اس سے روایتی میڈیا پر دباؤ بڑھا ہے کہ وہ نہ صرف تیزی سے خبر دے بلکہ اس کی تصدیق بھی کرے، ورنہ ان کی ساکھ خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

س: موجودہ دور میں غلط معلومات اور فرضی خبروں کے سیلاب سے سچ کی تمیز کرنا کتنا مشکل ہو گیا ہے، اور ایسے میں بڑے میڈیا ہاؤسز کا اسرائیل سے متعلق خبروں پر آپس میں تعاون کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟

ج: ایمانداری سے کہوں تو، غلط معلومات کا یہ سیلاب مجھے اکثر بہت پریشان کر دیتا ہے۔ آج کل سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا واقعی بہت مشکل ہو گیا ہے۔ آپ ایک خبر دیکھتے ہیں، اور پانچ منٹ بعد اسی خبر کا بالکل الٹ بیانیہ کسی اور پلیٹ فارم پر موجود ہوتا ہے۔ خاص طور پر اسرائیل جیسے معاملات پر، جہاں ہر فریق کا اپنا ایک نقطہ نظر ہے، مجھے یہ بات بہت الجھا دیتی ہے کہ کس پر یقین کیا جائے۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ بڑے میڈیا ہاؤسز اسرائیل سے متعلق خبروں پر آپس میں تعاون کر رہے ہیں، تو میرے ذہن میں دوہری کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ ایک طرف تو مجھے لگتا ہے کہ شاید یہ بہتر ہے کیونکہ وہ وسائل کو جوڑ کر زیادہ مستند خبر دے سکتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف، میرا دل یہ سوچ کر بے چین ہو جاتا ہے کہ کہیں یہ تعاون کسی ایک مخصوص بیانیے کو مضبوط کرنے کے لیے تو نہیں؟ یہ خدشہ مجھے اندر سے کچوکے لگاتا ہے کہ کہیں یہ “شفافیت” کا نام دے کر کسی خاص سیاسی ایجنڈے کو فروغ دینے کی کوشش تو نہیں۔ اس صورتحال میں ایک عام قاری کے لیے سچ تک پہنچنا کسی مشکل پہاڑ کو سر کرنے جیسا ہے۔

س: جب عالمی میڈیا کے بڑے ادارے اسرائیل سے متعلق خبروں پر آپس میں باہمی تعاون کرتے ہیں، تو کیا یہ واقعی خبروں میں شفافیت اور غیرجانبداری لاتا ہے یا اس سے ایک مخصوص عالمی بیانیہ مزید مضبوط ہوتا ہے؟

ج: یہ سوال ہمیشہ میرے ذہن میں گھومتا رہتا ہے اور اکثر مجھے بے چین کر دیتا ہے۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ دنیا کے بڑے میڈیا ادارے اسرائیل سے متعلق خبروں پر آپس میں مل کر کام کر رہے ہیں، تو پہلی نظر میں تو لگتا ہے کہ یہ اچھی بات ہے، شاید اس سے خبروں میں زیادہ شفافیت آئے گی اور سب کو ایک جیسی، تصدیق شدہ معلومات ملیں گی۔ لیکن میرے تجربے میں، اکثر اوقات ایسا نہیں ہوتا۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ جب ایسے ادارے ایک ساتھ آتے ہیں، تو بسا اوقات ان کا اجتماعی نقطہ نظر اتنا مضبوط ہو جاتا ہے کہ وہ کسی ایک خاص “عالمی بیانیے” کو ہی تقویت دیتا ہے، اور دیگر آوازوں یا متبادل نقطہ ہائے نظر کو کمزور کر دیتا ہے۔ یہ مجھے بہت برا لگتا ہے جب محسوس ہوتا ہے کہ حقیقت کا صرف ایک ہی پہلو دکھایا جا رہا ہے، اور باقی سب کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ واقعی سچائی کو زیادہ واضح کر رہا ہے، یا صرف اس سچائی کو جو ان کے لیے “مناسب” ہے؟ مجھے ہمیشہ یہ تشویش رہتی ہے کہ اس طرح کا تعاون کہیں آزادی اظہار اور حقائق کی مکمل تصویر کو مسخ نہ کر دے۔