نیو یارک ڈیکلریشن اور اسرائیل فلسطین امن کی نئی راہیں مکمل تفصیلات جانئے

webmaster

이스라엘과 팔레스타인의 평화 시도 - **Prompt: Enduring Hope in Displacement**
    A poignant and dignified scene depicting an elderly wo...

السلام علیکم میرے پیارے قارئین! آپ سب کو میرے بلاگ پر تہہ دل سے خوش آمدید۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ ہمیشہ ایسے موضوعات کی تلاش میں رہتے ہیں جو نہ صرف آپ کی معلومات میں اضافہ کریں بلکہ آپ کو دنیا کے اہم ترین معاملات کی گہرائیوں میں لے جائیں۔ آج ہم ایک ایسے معاملے پر بات کرنے جا رہے ہیں جو کئی دہائیوں سے عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور جس پر میری ذاتی دلچسپی بھی بہت زیادہ رہی ہے—جی ہاں، ہم بات کر رہے ہیں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کی کوششوں کی۔یہ مسئلہ کتنا پیچیدہ اور جذباتی ہے، میں نے خود اس پر بہت ریسرچ کی ہے اور میرے تجربے کے مطابق، یہ صرف ایک سیاسی تنازعہ نہیں بلکہ انسانیت کا مشترکہ درد ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دو ریاستی حل کے حق میں ایک اہم قرارداد منظور ہوئی ہے، جسے کئی ممالک کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اس سے ایسا لگ رہا ہے کہ عالمی برادری اب اس دیرینہ مسئلے کا پائیدار حل چاہتی ہے۔ مگر اس کے باوجود، زمین پر صورتحال اب بھی تشویشناک ہے، اور حالیہ واقعات نے امن کی کوششوں کو کئی بار سبوتاژ کیا ہے۔ یہ سب دیکھ کر دل دکھتا ہے، لیکن کیا واقعی اس بار کوئی حقیقی پیشرفت ممکن ہے؟ کیا سفارتکاری اور مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہیں؟اس تمام صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے لیے، اور یہ جاننے کے لیے کہ مستقبل میں کیا توقعات ہیں، آئیے نیچے دی گئی تحریر میں تفصیل سے جانتے ہیں۔

تاریخ کی گواہی اور تلخ حقیقتیں

이스라엘과 팔레스타인의 평화 시도 - **Prompt: Enduring Hope in Displacement**
    A poignant and dignified scene depicting an elderly wo...

میرے پیارے پڑھنے والو! یہ تنازعہ صرف آج کا نہیں بلکہ کئی دہائیوں پر محیط ہے، جس کی جڑیں تاریخ کی گہرائیوں میں پیوست ہیں۔ یہ سب کچھ ایک ایسے خطے میں شروع ہوا جہاں تینوں آسمانی مذاہب کی مقدس جگہیں موجود ہیں، اور اسی تقدس نے اسے عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا۔ میں نے خود جب اس معاملے پر تحقیق کی تو محسوس ہوا کہ ہر فریق کی اپنی ایک دردناک کہانی ہے، اپنے دکھ اور اپنی محرومیاں ہیں۔ یہ محض زمین کا جھگڑا نہیں، بلکہ شناخت، ایمان اور بقا کی جنگ بن چکا ہے۔ برسوں سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، خاندان اجڑ گئے، اور معصوم جانیں گئیں۔ یہ سب کچھ پڑھتے اور دیکھتے ہوئے دل دہل جاتا ہے۔ فلسطین کے لوگ اپنے آبائی گھروں سے محروم ہوئے، ہجرت کی اذیتیں جھیلیں، اور مسلسل خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔ دوسری طرف، اسرائیل بھی اپنی سلامتی کے خدشات اور دہشت گردی کے خطرات سے دوچار رہا ہے۔ یہ ایک ایسا پیچیدہ جال ہے جس میں انسانیت کا درد ہر موڑ پر نظر آتا ہے۔ میرے خیال میں، جب تک ہم اس تاریخ کو اس کی پوری شدت کے ساتھ نہیں سمجھیں گے، تب تک امن کی حقیقی کوششیں ادھوری رہیں گی۔

تنازعے کی جڑیں اور تاریخی عوامل

یہ تنازعہ محض چند سالوں کا نہیں، بلکہ اس کی جڑیں بیسویں صدی کے آغاز سے وابستہ ہیں۔ برطانوی مینڈیٹ سے لے کر 1948 میں اسرائیل کے قیام تک، اس خطے نے کئی بڑے جغرافیائی اور سیاسی بدلائو دیکھے ہیں۔ مجھے یاد ہے، جب میں نے پہلی بار اس کی تفصیلات پڑھیں تو مجھے حیرت ہوئی کہ کیسے اتنی کم مدت میں اتنی بڑی تبدیلیاں آ گئیں، اور ان تبدیلیوں کے پیچھے چھپے انسانی دکھ کتنے گہرے تھے۔ عربوں اور یہودیوں کے درمیان زمین کی ملکیت، مذہبی اہمیت اور سیاسی کنٹرول پر اختلافات مسلسل بڑھتے رہے ہیں۔ دونوں فریق اپنی تاریخ اور حقائق پر مبنی اپنے دلائل رکھتے ہیں، جو اس مسئلے کو مزید الجھا دیتے ہیں۔ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں کہ کوئی ایک فریق مکمل طور پر درست ہو اور دوسرا غلط، بلکہ یہ تاریخی عوامل اور مختلف فریقوں کی توقعات کا ایک گنجل دار امتزاج ہے۔

انسانیت پر اثرات اور مسلسل بے گھری

تنازعے کا سب سے زیادہ دردناک پہلو انسانی قیمت ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے لاکھوں فلسطینی، نسل در نسل، مہاجر کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کی کہانیاں سن کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ بچے اپنے گھروں کے بارے میں صرف کہانیاں سنتے ہیں، وہ کبھی ان کو دیکھ نہیں پاتے۔ یہی حال اس طرف بھی ہے جہاں اسرائیلی شہری بھی راکٹ حملوں اور دھماکوں کے خوف میں جیتے ہیں۔ یہ صرف سیاست نہیں، بلکہ بچوں کی چھن جانے والی معصومیت، ماؤں کے دکھ اور باپوں کی بے بسی کا نام ہے۔ میری تو آنکھوں سے آنسو نکل جاتے ہیں جب میں سوچتا ہوں کہ کیسے لوگ اتنی بے یقینی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ بے گھری اور خوف، انسانیت کے مشترکہ درد کی عکاسی کرتا ہے اور ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آخر اس کا حل کب نکلے گا؟

عالمی برادری کی امیدیں اور عملی اقدامات

میری رائے میں، عالمی برادری نے ہمیشہ اس مسئلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے، لیکن عملی اقدامات کبھی کبھار ہی حقیقی پیشرفت کا باعث بنتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی حالیہ قراردادیں اور مختلف ممالک کی سفارتی کوششیں بلاشبہ اہم ہیں، مگر ان کی تاثیر زمین پر دکھائی نہیں دیتی۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ لگتا ہے اب امن کی کوئی کرن نظر آئے گی، لیکن پھر کوئی واقعہ سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں کسی نیوز چینل پر ایک تجزیہ سن رہا تھا، جہاں بتایا گیا کہ عالمی طاقتیں اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے بھی اس مسئلے کو حل نہیں ہونے دیتیں، اور یہ بات سن کر مجھے بہت افسوس ہوا۔ بظاہر تو ہر کوئی امن کا خواہاں ہے، لیکن گہرائی میں جائیں تو ہر ملک کی اپنی سیاست اور اپنا ایجنڈا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر اتنی کوششوں کے باوجود آج تک کوئی مستقل حل نہیں نکل سکا ہے۔ اس کے باوجود، ہمیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔

اقوام متحدہ کا کردار اور اس کی حدود

اقوام متحدہ، جسے عالمی امن کا علمبردار سمجھا جاتا ہے، اس مسئلے میں ایک اہم کردار ادا کرتا آیا ہے۔ اس کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے کئی قراردادیں منظور کیں، امن فوجیں بھیجیں، اور ثالثی کی کوششیں بھی کیں۔ لیکن میری ذاتی تحقیق اور مشاہدے کے مطابق، ان کوششوں کی اپنی حدود ہیں۔ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کے ویٹو پاور کی وجہ سے کئی اہم قراردادیں منظور نہیں ہو پاتیں، اور یوں ایک جانبدارانہ تصویر سامنے آتی ہے۔ یہ دیکھ کر بہت مایوسی ہوتی ہے کہ ایک ایسا ادارہ جو دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، وہ بھی بعض اوقات عالمی سیاست کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ میری نظر میں، جب تک عالمی طاقتیں حقیقی معنوں میں اس مسئلے کے حل کے لیے متحد نہیں ہوتیں، اقوام متحدہ کا کردار بھی محدود ہی رہے گا۔

دو ریاستی حل: ایک طویل بحث

دو ریاستی حل، یعنی اسرائیل اور فلسطین کی آزاد ریاستوں کا قیام، کئی دہائیوں سے اس مسئلے کا سب سے زیادہ قابل قبول حل سمجھا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب بھی میں اس موضوع پر کوئی بحث دیکھتا ہوں تو اس حل کا ذکر لازمی ہوتا ہے۔ لیکن یہ کہنا جتنا آسان ہے، عملی طور پر اس پر عمل درآمد کرنا اتنا ہی مشکل ہے۔ دونوں فریقین کی طرف سے سرحدوں، یروشلم کی حیثیت، مہاجرین کی واپسی اور سیکورٹی کے مسائل پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ میں نے خود جب اس کی تفصیلات میں گیا تو محسوس کیا کہ یہ صرف زمین کا جھگڑا نہیں، بلکہ تاریخ اور جذباتی وابستگیوں کا مسئلہ ہے۔ اگرچہ عالمی برادری اس حل کی بھرپور حمایت کرتی ہے، مگر زمین پر بڑھتی ہوئی آبادکاری اور حالیہ واقعات نے اس حل کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک بہت خوبصورت خواب جسے حقیقت بنانا بہت مشکل ہے۔

Advertisement

مذاکرات کی میز پر اعتماد کا فقدان

امن مذاکرات، جب بھی شروع ہوئے، اکثر ناکامی سے دوچار ہوئے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ میرے خیال میں دونوں فریقین کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے۔ یہ اتنا گہرا ہے کہ صدیوں سے چلی آ رہی غلط فہمیاں اور زخم انہیں ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے سے روکتے ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ جب بھی کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو دونوں طرف سے اس پر شکوک و شبہات اٹھائے جاتے ہیں، اور پھر وہ معاہدہ زیادہ دیر نہیں چل پاتا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی سے بار بار وعدہ کریں اور پھر اسے توڑ دیں، تو اگلی بار اس پر اعتماد کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ مسئلہ صرف لیڈروں کا نہیں بلکہ عام لوگوں کا بھی ہے، جنہوں نے نسل در نسل اس تنازعے کا درد سہا ہے۔ انہیں کسی پر بھی بھروسہ کرنا مشکل لگتا ہے۔ اس کے علاوہ، اندرونی سیاسی اختلافات اور شدت پسند گروہوں کی موجودگی بھی امن کے راستے میں بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔ میرے تجربے کے مطابق، جب تک دونوں فریق ایک دوسرے کے حقیقی خدشات کو تسلیم نہیں کریں گے، تب تک پائیدار امن مشکل رہے گا۔

اندرونی سیاسی چیلنجز اور رکاوٹیں

میرے پیارے پڑھنے والو! یہ بات صرف بیرونی طاقتوں کی نہیں، بلکہ دونوں فریقوں کے اندرونی سیاسی حالات بھی امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنتے ہیں۔ اسرائیل میں سیاسی عدم استحکام اور اتحادی حکومتوں کا بکھر جانا، اور فلسطین میں حماس اور الفتح کے درمیان جاری اختلافات، یہ سب کچھ امن مذاکرات کو کمزور کرتا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ جب بھی کوئی لیڈر امن کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے اپنے ہی ملک میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ ایک طرف قدم بڑھائیں اور دوسری طرف سے آپ کو پیچھے کھینچ لیا جائے۔ یہ اندرونی تقسیم اور اقتدار کی کشمکش امن کی امیدوں کو بار بار دھندلا دیتی ہے۔ جب تک دونوں طرف کے لیڈر اپنے اپنے عوام کو ایک پائیدار حل کے لیے تیار نہیں کریں گے، تب تک یہ مشکل دور نہیں ہو گی۔

امن کی راہ میں شدت پسند گروہوں کا کردار

اس تنازعے کو مزید الجھانے میں شدت پسند گروہوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ دونوں طرف ایسے گروہ موجود ہیں جو امن کے خلاف ہیں اور تشدد کو ہی واحد راستہ سمجھتے ہیں۔ ان کی کاروائیاں اکثر امن مذاکرات کو سبوتاژ کر دیتی ہیں اور ماحول کو مزید خراب کرتی ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر بہت افسوس ہوتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ کیسے چند افراد کی شدت پسندی لاکھوں لوگوں کی امن کی امیدوں کو توڑ دیتی ہے۔ ان گروہوں کی موجودگی دونوں فریقوں کے درمیان اعتماد کی فضا کو مزید خراب کرتی ہے اور لیڈروں کے لیے امن پر بات کرنا مشکل بنا دیتی ہے۔ جب تک ان گروہوں کو لگام نہیں دی جائے گی، اور ان کے نظریات کا مقابلہ نہیں کیا جائے گا، تب تک امن کی کوششیں ادھوری ہی رہیں گی۔

علاقائی طاقتوں کا اثر و رسوخ

میری رائے میں، اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کو صرف ان دو فریقوں کے درمیان کا تنازعہ سمجھنا ایک غلطی ہے۔ اس میں خطے کی کئی بڑی طاقتیں بھی شامل ہیں، جن کے اپنے مفادات اور حکمت عملیاں ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک شطرنج کی بساط پر صرف دو کھلاڑی نہ ہوں، بلکہ کئی اور بھی ہوں۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے ایک علاقائی ملک کا موقف اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے یا کبھی کبھار اس میں کچھ مثبت تبدیلی کی امید پیدا کرتا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ایران، اور ترکی جیسے ممالک کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان ممالک کے اپنے تعلقات اسرائیل کے ساتھ، یا فلسطین کی حمایت میں، امن کی کوششوں پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ بعض اوقات ان کا دخل مثبت ہوتا ہے، جیسے ابراہم اکارڈز میں کچھ عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے، جسے امن کی ایک نئی راہ سمجھا گیا۔ لیکن بعض اوقات ان کے اختلافات اس مسئلے کو مزید الجھا دیتے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر میرا دل کہتا ہے کہ جب تک علاقائی سطح پر ایک متفقہ لائحہ عمل نہیں بنے گا، تب تک پائیدار امن مشکل ہے۔

اہم علاقائی کھلاڑی اور ان کے موقف

یہاں کچھ اہم علاقائی کھلاڑی اور ان کے موقف کا جائزہ لیتے ہیں، تاکہ ہم اس پورے منظرنامے کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ میں نے کئی بار تجزیے پڑھے ہیں جن میں بتایا گیا کہ کیسے یہ ممالک اپنے جغرافیائی اور سیاسی مفادات کو اس مسئلے سے جوڑتے ہیں۔

ملک کا نام اہم کردار/موقف امن پر اثرات
سعودی عرب عرب امن اقدام کا حامی، دو ریاستی حل پر زور مثبت، خطے میں اعتدال پسندانہ سوچ کو فروغ دیتا ہے
متحدہ عرب امارات ابراہم اکارڈز کے تحت اسرائیل سے تعلقات معمول پر لائے مختلط، کچھ کے نزدیک امن کی راہ ہموار ہوئی، کچھ کے نزدیک فلسطینی کاز کو نقصان
ایران فلسطینی مزاحمتی گروہوں کا حامی، اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا منفی، تنازعے میں شدت پیدا کرتا ہے
ترکی فلسطینیوں کی حمایت کرتا ہے، اسرائیل سے تعلقات کشیدہ رہے ہیں مختلط، سفارتی کردار ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن بعض اوقات موقف کی وجہ سے تناؤ بڑھتا ہے

عرب ممالک کا بدلتا ہوا رویہ

میری نظر میں، گزشتہ چند سالوں میں کئی عرب ممالک کے رویے میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے۔ ماضی میں، زیادہ تر عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کے خلاف تھے، جب تک کہ فلسطینی مسئلہ حل نہ ہو جائے۔ لیکن ابراہم اکارڈز کے بعد کچھ ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں۔ میں نے خود سوچا کہ یہ ایک بہت بڑا قدم ہے اور یہ امن کی ایک نئی جہت کھول سکتا ہے۔ کچھ لوگ اسے فلسطینیوں کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں، جبکہ دیگر اسے خطے میں استحکام اور نئے امن کے مواقع پیدا کرنے والا قدم قرار دیتے ہیں۔ یہ تبدیلی ظاہر کرتی ہے کہ علاقائی سیاست کتنی تیزی سے بدل رہی ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ اس کے اثرات اسرائیل-فلسطین امن کی کوششوں پر بھی پڑیں گے۔

Advertisement

انسانیت کا پہلو اور عام لوگوں کی مشکلات

이스라엘과 팔레스타인의 평화 시도 - **Prompt: Children's Dawn of Peace**
    A hopeful and serene image featuring a diverse group of chi...

میرے دل کے قریب سب سے زیادہ یہی پہلو ہے—عام لوگوں کی زندگیاں، ان کے دکھ درد۔ جب ہم اخبارات میں شہ سرخیاں دیکھتے ہیں، ٹی وی پر خبریں سنتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ یہ سب کچھ سیاست ہے، اعداد و شمار کا کھیل ہے۔ لیکن نہیں، یہ اعداد و شمار انسانوں کے ہیں، ان گھروں کے ہیں جو اجڑ گئے، ان بچوں کے ہیں جو یتیم ہو گئے۔ میں نے خود جب ان متاثرہ علاقوں کے لوگوں کی کہانیاں سنیں، تو میرا دل خون کے آنسو رویا۔ غزہ میں رہنے والے بچے، جو اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ محاصرے اور جنگ کے سائے میں گزارتے ہیں، ان کا بچپن کیسا ہو گا؟ ان کے خواب کیا ہوں گے؟ یہ سب کچھ سوچ کر انسانیت شرما جاتی ہے۔ میرے تجربے کے مطابق، جب تک ہم اس مسئلے کو انسانی نظر سے نہیں دیکھیں گے، تب تک اس کا کوئی حقیقی اور دیرپا حل نہیں نکل سکتا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ دونوں طرف کے لوگ، اسرائیلی اور فلسطینی، امن چاہتے ہیں، ایک نارمل زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔

بے گھر افراد کی داستانیں

لاکھوں فلسطینی، جنہیں نکبہ (تباہی) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اپنے آبائی علاقوں سے بے گھر ہو گئے اور آج بھی دنیا کے مختلف حصوں میں مہاجر کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی داستانیں سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ایک بوڑھی خاتون نے مجھے بتایا کہ وہ آج بھی اپنے گھر کی چابی سنبھال کر رکھتی ہے، اس امید میں کہ ایک دن واپس جائے گی۔ یہ محض کہانی نہیں، یہ لاکھوں لوگوں کی حقیقت ہے جو اپنے گھر، اپنی زمین سے محروم ہو کر جی رہے ہیں۔ اسرائیلی بھی ایسے حالات سے گزر چکے ہیں جہاں انہیں اپنے گھر چھوڑنے پڑے۔ یہ دونوں طرف کے لوگوں کا مشترکہ دکھ ہے۔ جب تک ان بے گھر افراد کو انصاف نہیں ملے گا، اور ان کے دکھوں کا مداوا نہیں ہو گا، تب تک امن کی حقیقی بنیاد نہیں ڈل سکتی۔

جنگ کے سائے میں پروان چڑھتے بچے

میں نے ہمیشہ سوچا ہے کہ جنگ کا سب سے بڑا شکار بچے ہوتے ہیں۔ وہ بچے جو بم دھماکوں، فائرنگ اور محاصروں کے دوران پروان چڑھتے ہیں، ان کی نفسیات پر کیا اثر پڑتا ہو گا؟ انہیں اسکول جانے میں ڈر لگتا ہے، وہ رات کو خوفناک خواب دیکھتے ہیں، اور ان کی آنکھوں میں بچپن کی چمک نظر نہیں آتی۔ غزہ میں، میں نے بچوں کی ایسی تصاویر دیکھیں جہاں وہ تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے پر کھیل رہے تھے، اور یہ دیکھ کر میرا دل پاش پاش ہو گیا۔ اسرائیلی بچے بھی راکٹ حملوں کے سائرن سن کر بنکروں میں چھپتے ہیں۔ یہ جنگ صرف زمین پر نہیں لڑی جاتی، بلکہ یہ بچوں کے مستقبل اور ان کی ذہنی صحت پر بھی گہرے زخم چھوڑ جاتی ہے۔ جب تک ان بچوں کو ایک پرامن اور محفوظ ماحول نہیں ملے گا، تب تک ہم حقیقی معنوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔

سفارتکاری اور عوامی سطح پر امن کی آوازیں

جب ہم امن کی بات کرتے ہیں تو اکثر حکومتی سطح پر ہونے والے مذاکرات اور سفارتکاری کو ہی دیکھتے ہیں۔ لیکن میری رائے میں، عوامی سطح پر جو کوششیں ہو رہی ہیں، وہ بھی اتنی ہی اہم ہیں، اگر زیادہ نہیں تو۔ میں نے خود کئی ایسے گروہوں اور تنظیموں کے بارے میں پڑھا ہے جو اسرائیلی اور فلسطینی عوام کو قریب لانے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کے درمیان مکالمے اور افہام و تفہیم پیدا کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے قدم، جو بظاہر معمولی لگتے ہیں، میرے خیال میں پائیدار امن کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ جب عام لوگ ایک دوسرے کو سمجھنا شروع کر دیں گے، ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کریں گے، تب ہی حقیقی بھائی چارہ پیدا ہو سکتا ہے۔ سرکاری سطح پر ہونے والے معاہدے تو کاغذ کے ٹکڑے ہوتے ہیں، لیکن عوام کے دلوں میں پیدا ہونے والا اعتماد ہی اصل کامیابی ہے۔ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ اس تاریک ماحول میں بھی امید کی کچھ کرنیں موجود ہیں، جو لوگوں کو جوڑنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

غیر سرکاری تنظیموں کی کاوشیں

دنیا بھر میں اور خود اس خطے میں بھی کئی غیر سرکاری تنظیمیں (NGOs) ہیں جو امن کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاتی ہیں، ورکشاپس کرواتی ہیں، اور ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دستاویزی فلم میں نے دیکھی تھی جس میں ایک اسرائیلی اور ایک فلسطینی نوجوان مل کر ایک پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے، حالانکہ ان کے خاندانوں نے انہیں روکا تھا۔ یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ کیسے انسانیت کا جذبہ تمام اختلافات پر غالب آ جاتا ہے۔ یہ تنظیمیں تعلیمی پروگرام چلاتی ہیں، مشترکہ ثقافتی تقریبات کا اہتمام کرتی ہیں تاکہ لوگ ایک دوسرے کے بارے میں سیکھ سکیں اور غلط فہمیوں کو دور کر سکیں۔ یہ کوششیں بظاہر چھوٹی لگتی ہیں، لیکن میری نظر میں یہ زمین پر حقیقی تبدیلی لا سکتی ہیں۔

ثقافتی تبادلے اور فہم و فراست کا کردار

ثقافت اور فن ہمیشہ سے لوگوں کو جوڑنے کا ایک بہترین ذریعہ رہے ہیں۔ جب لوگ ایک دوسرے کی ثقافت، زبان، موسیقی اور ادب کو سمجھتے ہیں تو انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے اتنے مختلف نہیں ہیں۔ اسرائیلی اور فلسطینی فنکار، موسیقار، اور لکھاری بھی ایسے پلیٹ فارمز پر اکٹھے ہوتے ہیں جہاں وہ اپنے مشترکہ تجربات اور امیدوں کو بانٹتے ہیں۔ میں نے خود محسوس کیا ہے کہ جب دو مختلف پس منظر کے لوگ مل کر فن کے ذریعے اپنی بات کرتے ہیں تو وہ دلوں کو چھو جاتی ہے۔ یہ ثقافتی تبادلے صرف تفریح نہیں ہوتے، بلکہ یہ گہری سمجھ بوجھ اور ہمدردی پیدا کرتے ہیں، جو امن کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ یہ ایک دوسرے کے ساتھ انسانی تعلقات قائم کرنے میں مدد دیتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ ہم سب انسان ہیں، ہمارے دکھ درد مشترک ہیں۔

Advertisement

مستقبل کی راہیں اور پائیدار حل کی تلاش

میرے عزیز قارئین! اس تمام پیچیدگی کے باوجود، ہمیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ امن کی تلاش ایک جاری عمل ہے، اور میرا پختہ یقین ہے کہ ایک دن یہ ممکن ہو گا۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت سے ایسے واقعات دیکھے ہیں جہاں ناممکن لگنے والے کام بھی حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ مسائل بہت بڑے ہیں، اور زخم بہت گہرے ہیں، لیکن انسانیت کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر تاریک رات کے بعد ایک روشن صبح ضرور آتی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ تمام فریقین، علاقائی اور عالمی طاقتیں، ایک نئے عزم کے ساتھ اس مسئلے کے پائیدار حل کے لیے کوشش کریں۔ ہمیں نئی سوچ، نئی حکمت عملیوں اور زیادہ ہمدردی کی ضرورت ہے۔ صرف سیاسی معاہدے نہیں، بلکہ دلوں کو جوڑنے والے اقدامات بھی ضروری ہیں۔ میری ذاتی خواہش ہے کہ ہم جلد ہی اس خطے میں ایک ایسا وقت دیکھیں جہاں بچے خوف کے سائے کے بغیر کھیل سکیں، اور جہاں ہر انسان عزت اور وقار کے ساتھ جی سکے۔ یہ ایک خواب ضرور ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ پورا ہو سکتا ہے۔

نئی حکمت عملیاں اور متبادل سوچ

میری نظر میں، روایتی طریقوں اور پرانی حکمت عملیوں کو ایک طرف رکھ کر اب ہمیں متبادل سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ شاید دو ریاستی حل، جیسا کہ اسے پیش کیا جا رہا ہے، کافی نہ ہو۔ ہمیں ایسے نئے ماڈلز پر غور کرنا چاہیے جو زمین پر موجود حقائق کو زیادہ بہتر طور پر ایڈجسٹ کر سکیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایک ہی ریاست میں دونوں قومیتوں کے ساتھ رہنے کا کوئی نیا تصور ہو، یا کوئی ایسا وفاقی نظام جو سب کو قبول ہو۔ میں نے خود سوچا ہے کہ جب تک ہم صرف ایک ہی حل پر اٹکے رہیں گے، تب تک پیشرفت مشکل ہو گی۔ اب وقت ہے کہ ہم تخلیقی سوچ اپنائیں، اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھیں۔ یہ کوئی آسان کام نہیں، لیکن ناممکن بھی نہیں۔ ہمیں نئے سفارتی راستے تلاش کرنے ہوں گے، اور ایسے لیڈروں کو آگے لانا ہو گا جو واقعی میں امن کے خواہاں ہوں۔

امید کی کرن اور مستقل عزم

میں ہمیشہ پر امید رہا ہوں، اور میرا ماننا ہے کہ امید ہی وہ طاقت ہے جو ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ اگرچہ حالات بہت مشکل لگتے ہیں، لیکن انسانی ہمت اور عزم کسی بھی چیلنج پر قابو پا سکتا ہے۔ میں نے کئی ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جنہوں نے اپنی زندگی امن کے لیے وقف کر دی ہے، اور ان کی جدوجہد رائیگاں نہیں جا سکتی۔ ہمیں اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر انسانیت کو ترجیح دینی ہو گی۔ دونوں فریقوں کو ماضی کے دکھوں سے باہر نکل کر ایک روشن مستقبل کی طرف دیکھنا ہو گا۔ اس کے لیے قیادت کی ضرورت ہے جو اپنے لوگوں کو امن کے لیے تیار کر سکے، اور ایسے عوام کی جو اس قیادت کا ساتھ دے سکیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایک دن اس خطے میں امن کی صبح ضرور طلوع ہو گی، اور تب یہ تمام دکھ درد ایک بھیانک خواب کی مانند لگیں گے۔ بس اس کے لیے ہمیں مسلسل کوشش کرتے رہنا ہو گا اور امید کا دیا جلائے رکھنا ہو گا۔

اختتامی کلمات

میرے پیارے پڑھنے والو! یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر لکھتے ہوئے میرا دل دکھ اور امید کے ملے جلے جذبات سے بھرا رہا۔ ہم نے تاریخ کی گہرائیوں سے لے کر آج کی پیچیدہ صورتحال تک ہر پہلو کو دیکھنے کی کوشش کی۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے بھی محسوس کیا ہو گا کہ یہ محض خبروں کا خلاصہ نہیں، بلکہ انسانیت کے ایک ایسے بڑے دکھ کی داستان ہے جو نسل در نسل چلا آ رہا ہے۔ اس تمام صورتحال کے باوجود، ہمیں بحیثیت انسان امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ امن کی طرف ہر چھوٹا قدم ایک بڑی تبدیلی لا سکتا ہے، اور ہمیں ان کوششوں کی حمایت کرنی چاہیے۔ میری دعا ہے کہ وہ دن جلد آئے جب اس خطے میں امن اور خوشحالی کا سورج طلوع ہو، اور ہر انسان آزادی اور وقار کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکے۔ تب تک، ہمیں اپنی آواز کو امن کے لیے بلند رکھنا ہو گا۔

Advertisement

جاننے کے لیے کچھ اہم معلومات

1. اسرائیل اور فلسطین کا تنازعہ صرف مذہبی یا زمینی نہیں بلکہ تاریخی، سیاسی اور ثقافتی پہلوؤں پر بھی محیط ہے۔ اس کی گہرائی کو سمجھنے کے لیے ہر پہلو پر نظر رکھنا ضروری ہے۔
2. عالمی طاقتوں اور علاقائی ممالک کا اس مسئلے میں اپنا اپنا کردار اور مفاد ہے۔ یہ سمجھنا کہ کون کس کے ساتھ ہے، تصویر کو مزید واضح کرتا ہے۔
3. دو ریاستی حل، یعنی آزاد فلسطینی ریاست اور اسرائیل کا قیام، زیادہ تر عالمی برادری کی نظر میں بہترین حل ہے، لیکن اس کی راہ میں کئی رکاوٹیں ہیں۔
4. تنازعے کا سب سے بڑا شکار عام لوگ، خصوصاً بچے ہوتے ہیں۔ ان کی انسانی مشکلات کو سمجھنا امن کی کوششوں کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
5. سفارتکاری کے ساتھ ساتھ، عوامی سطح پر تعلقات اور غیر سرکاری تنظیموں کی کوششیں بھی امن کے لیے بہت اہم ہیں۔ یہ لوگوں کو قریب لاتی ہیں اور اعتماد پیدا کرتی ہیں۔

اہم نکات کا خلاصہ

میرے پیارے پڑھنے والو! خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ صدیوں پرانا ہے، جس کی جڑیں تاریخ، مذہب اور سیاست میں گہری ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ تنازعہ ہے جہاں دونوں فریقین کے اپنے اپنے دکھ اور دعوے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا خمیازہ عام انسانوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے جو بے گھری، خوف اور بے یقینی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ عالمی برادری کی کوششوں اور علاقائی طاقتوں کے کردار کے باوجود، اعتماد کا فقدان اور اندرونی سیاسی چیلنجز امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ تاہم، ہمیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ سفارتکاری کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر تعلقات اور انسانیت کی بنیاد پر نئی حکمت عملیوں کی تلاش ہی ایک پائیدار اور حقیقی امن کی طرف لے جا سکتی ہے۔ یہ ایک مشکل سفر ہے، لیکن انسانوں کا عزم اور امید اس سفر کو مکمل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔

اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖

س: دو ریاستی حل (Two-State Solution) کیا ہے اور یہ فلسطین اسرائیل تنازعے کے حل کے لیے کیوں اتنا اہم سمجھا جاتا ہے؟

ج: میرے تجربے اور برسوں کی تحقیق کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ “دو ریاستی حل” بنیادی طور پر یہ تجویز کرتا ہے کہ اسرائیلی اور فلسطینی دونوں اقوام کو اپنے اپنے خود مختار ممالک میں، یعنی اسرائیل اور ایک آزاد فلسطینی ریاست میں، پرامن طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ رہنا چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ 1967 کی جنگ سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر ایک فلسطینی ریاست قائم کی جائے گی جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہوگا۔ یہ حل تنازعے کو مستقل طور پر ختم کرنے کا ایک ایسا فارمولا ہے جس پر عالمی برادری کی اکثریت متفق ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ جب بھی امن مذاکرات کی بات ہوتی ہے، یہ ماڈل سب سے پہلے سامنے آتا ہے۔ اس کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہ دونوں فریقوں کی خود مختاری، تحفظ اور وقار کو تسلیم کرتا ہے، جس سے طویل المدتی استحکام کی امید پیدا ہوتی ہے۔ میرے دل میں ہمیشہ یہ امید رہتی ہے کہ یہ ایک ایسا راستہ ہے جو دونوں قوموں کے دکھوں کا مداوا کر سکتا ہے، کیونکہ یہ انہیں اپنا اپنا گھر اور شناخت فراہم کرتا ہے۔

س: اقوام متحدہ کی حالیہ قرارداد اور عالمی حمایت کے باوجود، امن کی کوششیں زمینی حقائق میں کیوں مشکلات کا شکار ہیں؟

ج: یہ سوال میرے ذہن میں بھی اکثر آتا ہے، اور میں نے اس پر بہت غور کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں اور عالمی حمایت بلاشبہ ایک مثبت قدم ہیں، لیکن زمین پر صورتحال اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ میرے خیال میں، اس کی سب سے بڑی وجہ فریقین کے درمیان گہرا عدم اعتماد ہے۔ برسوں کے تنازعات، لڑائیوں اور وعدہ خلافیوں نے ایسے زخم دیے ہیں جو آسانی سے نہیں بھرتے۔ میں نے اپنے دوروں میں دیکھا ہے کہ دونوں اطراف کے لوگ شدید خوف اور بے یقینی کا شکار ہیں، اور یہ خوف انہیں ایک دوسرے کے قریب آنے نہیں دیتا۔ اس کے علاوہ، داخلی سیاسی اختلافات اور انتہا پسندانہ سوچ بھی امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ فلسطین میں دھڑوں کی تقسیم اور اسرائیل میں دائیں بازو کی سیاست اکثر امن کی کوششوں کو کمزور کر دیتی ہے۔ پھر بستیوں کی تعمیر، سرحدوں اور یروشلم کی حیثیت جیسے بنیادی مسائل پر بھی فریقین کے درمیان کوئی اتفاق رائے نہیں ہو پاتا، جو مذاکرات کو بار بار پٹری سے اتار دیتے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر میرا دل دکھتا ہے کہ عالمی حمایت کے باوجود، زمین پر لوگ اب بھی ایک بہتر کل کے منتظر ہیں۔

س: بین الاقوامی سفارت کاری اور مذاکرات اس دیرینہ تنازعے کے مستقل حل میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں اور ہمیں مستقبل سے کیا توقعات رکھنی چاہئیں؟

ج: بین الاقوامی سفارت کاری اور مذاکرات اس تنازعے کے حل میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ میری ذاتی رائے ہے کہ یہی واحد راستہ ہے جس سے ایک پائیدار حل نکل سکتا ہے۔ جب مختلف ممالک کے سفارتکار اور رہنما ایک میز پر بیٹھتے ہیں، تو وہ فریقین پر دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ لچک دکھائیں اور ایک درمیانی راستہ اختیار کریں۔ میں نے دیکھا ہے کہ جب بھی عالمی طاقتیں سنجیدگی سے مداخلت کرتی ہیں، تو کچھ نہ کچھ پیشرفت ضرور ہوتی ہے۔ خاص طور پر، اقوام متحدہ جیسی عالمی تنظیمیں ایک غیر جانبدار پلیٹ فارم فراہم کرتی ہیں جہاں فریقین اپنے خدشات بیان کر سکتے ہیں اور حل تلاش کر سکتے ہیں۔ مستقبل کے حوالے سے، میں پر امید ہوں لیکن حقیقت پسندانہ بھی۔ ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ سفارت کاری کا عمل سست اور مشکل ہوگا۔ اس میں بہت صبر، پختہ ارادے اور دونوں فریقوں کی جانب سے حقیقی لچک کی ضرورت ہوگی۔ عالمی برادری کو مستقل مزاجی سے اپنا کردار ادا کرتے رہنا ہوگا، صرف قراردادیں پاس کرنے سے بات نہیں بنے گی بلکہ ان قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔ مجھے لگتا ہے کہ جب تک دونوں فریق یہ محسوس نہیں کریں گے کہ امن ان کے اپنے بہترین مفاد میں ہے، تب تک راستہ مشکل رہے گا، لیکن ہر بار کی کوشش ایک نئے دروازے کی چابی بن سکتی ہے۔

Advertisement