دوستو، اگر آپ تاریخ کے کسی ایسے سفر پر نکلنا چاہتے ہیں جہاں ماضی کی گہرائیوں سے حیرت انگیز راز نکل کر سامنے آئیں اور انسانیت کی مشترکہ وراثت کی کہانیاں زندہ ہو اٹھیں، تو پھر اسرائیل کی آثار قدیمہ کی اہمیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ یہ سر زمین صرف ریت اور پتھروں کا ڈھیر نہیں بلکہ ہر کونے میں صدیوں پرانی تہذیبوں کا دل دھڑک رہا ہے.
ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کی مٹی میں ہی تاریخ سانس لے رہی ہو! مجھے ہمیشہ سے محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل میں ہر نئی کھدائی کے ساتھ، ہم صرف کسی پرانی عمارت یا برتن کو نہیں ڈھونڈتے، بلکہ یہ پوری دنیا کے لیے علم اور حکمت کا ایک نیا دروازہ کھول دیتا ہے.
یہاں کی ہر دریافت، چاہے وہ بحیرہ مردار کے طومار ہوں یا قدیم شہروں کی باقیات، ہمیں بائبل کی کہانیوں اور اس سے بھی کہیں پہلے کی انسانی زندگی کے بارے میں وہ حقائق بتاتی ہے جو آج کے جدید دور میں بھی حیران کن ہیں.
یہ صرف مذہبی اہمیت کی بات نہیں بلکہ یہ ہماری پوری دنیا کی تاریخ کا حصہ ہے، جو نئے رجحانات اور آنے والے وقت کی تحقیق کے لیے بنیاد فراہم کر رہی ہے۔ یہ سب دیکھ کر میرا تو دل جھوم اٹھتا ہے، اور مجھے یقین ہے کہ ابھی اور بھی بہت کچھ باقی ہے جو آنے والے سالوں میں ہماری سوچ بدل دے گا!
آئیں، نیچے کے مضمون میں ہم اس کی مزید گہرائی میں ڈوبتے ہیں۔
مٹی کی تہوں میں چھپے ہزاروں سال پرانے قصے

ہر پتھر میں چھپی تاریخ کی سانس
دوستو، میں نے جب بھی اسرائیل کی سرزمین پر قدم رکھا، مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں کسی جیتی جاگتی تاریخ کی کتاب کے صفحات پلٹ رہا ہوں۔ یہاں کی مٹی کی ہر ایک تہہ میں صدیوں، بلکہ ہزاروں سال پرانے قصے دفن ہیں۔ مجھے یاد ہے، ایک بار میں یروشلم کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں تھا، جہاں مقامی لوگ اپنے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے اچانک پرانے سکے یا برتنوں کے ٹکڑے ڈھونڈ نکالتے تھے۔ یہ دیکھ کر میرا تو دل ہی دھڑک اٹھا تھا کہ یہاں ہر عام انسان بھی کسی نہ کسی طرح تاریخ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہ محض پتھر اور مٹی نہیں، بلکہ ہر ذرہ ہمیں اس وقت کی زندگی، ان کے رسم و رواج، اور ان کی جدوجہد کے بارے میں کچھ نہ کچھ بتاتا ہے۔ یہ واقعی ایک حیرت انگیز احساس ہوتا ہے جب آپ ایسی کسی جگہ پر کھڑے ہوں اور سوچیں کہ یہ وہی زمین ہے جہاں سے ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام جیسے عظیم ہستیوں کے قدم گزرے ہوں گے۔ یہاں کی زمین اتنی زرخیز ہے کہ اس نے نہ صرف فصلیں اگائی ہیں بلکہ تہذیبوں کے بیج بھی بوئے ہیں، اور آج بھی ان کی کہانیاں مٹی کے نیچے سے نکل کر ہم تک پہنچ رہی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ابھی بھی بہت سے راز اس مٹی کی آغوش میں چھپے ہیں جو آنے والے وقت میں دنیا کو حیران کر دیں گے۔
مٹی سے نکلتی زندہ کہانیاں
یہاں کی مٹی کی تہوں کو جب ماہرین آثار قدیمہ کھودتے ہیں تو انہیں صرف پرانی چیزیں نہیں ملتیں، بلکہ وہ پوری کی پوری تہذیبوں کو دوبارہ زندہ کر دیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے، ایک دستاویزی فلم میں میں نے دیکھا تھا کہ کس طرح ایک چھوٹی سی مٹی کی تختی، جس پر کچھ نامعلوم زبان میں لکھا تھا، نے پوری ایک قدیم سلطنت کے بارے میں حیران کن معلومات فراہم کیں۔ ایسی دریافتیں نہ صرف تاریخ دانوں کے لیے بلکہ ہم جیسے عام لوگوں کے لیے بھی ایک نیا نقطہ نظر فراہم کرتی ہیں۔ مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ جگہیں صرف وزٹ کرنے کے لیے نہیں بلکہ انہیں محسوس کرنے کے لیے ہیں۔ یہاں آ کر انسان کو اپنی موجودگی کا احساس ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ کو ایک بڑے، وسیع تاریخی تسلسل کا حصہ سمجھتا ہے۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ جب آپ تل ابیب کے میوزیم میں جائیں اور وہاں قدیم اوزار، زیورات یا عبادت کی اشیاء دیکھیں، تو آپ کو ان لوگوں کی زندگی کی ایک جھلک ملتی ہے جو ہزاروں سال پہلے یہاں رہتے تھے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ انسان ہمیشہ سے ہی آگے بڑھنے، تخلیق کرنے اور اپنی چھاپ چھوڑنے کا خواہشمند رہا ہے۔
قدیم صحائف اور تاریخی شواہد کا حسین امتزاج
بحیرہ مردار کے طوماروں کا اعجاز
مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی آثار قدیمہ کا شوقین اسرائیل کا ذکر کرے اور بحیرہ مردار کے طوماروں کی بات نہ کرے۔ یہ میری ذاتی رائے ہے کہ ان طوماروں نے دنیا کی تاریخ اور بائبل کے فہم کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے۔ میں نے جب پہلی بار ان طوماروں کے بارے میں پڑھا، تو مجھے ایسا لگا جیسے ہزاروں سال پرانے راز اچانک ایک غار سے نکل کر سامنے آ گئے ہوں۔ تصور کریں، ایک چرواہا اپنی بکریوں کے پیچھے جا رہا ہے اور اسے ایک غار میں پرانے مٹی کے برتن ملتے ہیں، جن کے اندر دنیا کی سب سے قدیم بائبل کے نسخے موجود ہیں۔ یہ صرف بائبل کے مطالعہ کرنے والوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر اس شخص کے لیے ایک معجزہ ہے جو تاریخ اور انسانی علم میں دلچسپی رکھتا ہے۔ یہ طومار ہمیں بتاتے ہیں کہ جو کہانیاں ہم نے سنی تھیں، جو دعوے کیے جاتے تھے، ان کی جڑیں کتنی گہری اور مستند ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب میں نے یروشلم کے ‘اسرائیل میوزیم’ میں ان طوماروں کو دیکھا، تو مجھے ایک عجیب سا سکون محسوس ہوا، جیسے میں خود ہزاروں سال پیچھے چلا گیا ہوں اور اس وقت کے لوگوں کی سوچ اور عقیدے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔
مقدس مقامات کی سچائی کا انکشاف
اسرائیل کے آثار قدیمہ کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ یہ بائبل میں بیان کردہ کئی مقدس مقامات کی سچائی کو ثابت کرتے ہیں۔ مجھے ہمیشہ سے یہ تجسس رہا ہے کہ آیا واقعی وہ جگہیں آج بھی موجود ہیں جہاں پیغمبروں نے زندگی گزاری، اور یہ دیکھ کر میں بہت حیران ہوتا ہوں کہ آثار قدیمہ ان مقامات کی موجودگی کو ثابت کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، یروشلم میں ہیکل سلیمانی کی دیواریں، گلیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بستیوں کی باقیات، یا بحیرہ گلیل کے اردگرد کی جگہیں – یہ سب ہمیں ایک ایسی تاریخ سے جوڑتی ہیں جو محض کتابوں میں نہیں بلکہ ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے ایک مقامی گائیڈ سے بات کی تھی، اور اس نے مجھے بتایا کہ ہر نئی کھدائی کے ساتھ انہیں کوئی نہ کوئی ایسی چیز ضرور ملتی ہے جو بائبل کی کہانیوں کو مزید تقویت دیتی ہے۔ یہ میرے لیے ایک سچائی کا سفر تھا، جہاں عقیدہ اور ٹھوس شواہد ایک ساتھ مل کر ایک نئی کہانی بناتے ہیں۔ یہ مجھے یقین دلاتا ہے کہ ہماری تاریخ جتنی ہم سمجھتے ہیں اس سے کہیں زیادہ گہری اور حیرت انگیز ہے۔
شہروں کی گہرائیوں سے نکلتی تہذیبوں کی داستان
یروشلم: تہذیبوں کا ایک زندہ مرکز
یروشلم کو صرف ایک شہر کہنا ناانصافی ہوگی، یہ تو ایک زندہ تاریخ ہے، تہذیبوں کا وہ مرکز ہے جہاں تین عظیم الہامی مذاہب کی جڑیں پیوست ہیں۔ مجھے جب بھی اس شہر کی گلیوں میں چلنے کا موقع ملا، مجھے لگا جیسے ہر پتھر اپنی ایک کہانی سنا رہا ہے۔ یروشلم کی مٹی کے نیچے بھی تہذیبوں کی کئی تہیں موجود ہیں۔ یہاں کی کھدائیاں ہمیں بتاتی ہیں کہ کس طرح یہ شہر ہزاروں سالوں سے مختلف بادشاہتوں، ثقافتوں اور مذاہب کا گڑھ رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے سٹی آف ڈیوڈ کے نیچے سرنگوں میں سفر کیا تھا، اور وہاں پتھروں پر بنے قدیم نشانات دیکھ کر مجھے انسان کی صدیوں پرانی موجودگی کا احساس ہوا۔ یہاں کی کھدائیوں سے ملنے والے سکے، برتن اور عمارتوں کی باقیات ہمیں بتاتی ہیں کہ کس طرح یہ شہر بار بار تباہ ہوا اور پھر دوبارہ اٹھ کھڑا ہوا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ آج بھی اس شہر میں لوگ انہی گلیوں میں چلتے ہیں جہاں ہزاروں سال پہلے ان کے آباء و اجداد چلتے تھے۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ یروشلم صرف ایک مذہبی شہر نہیں بلکہ ایک تاریخی عجائب گھر ہے جہاں ہر کونے میں ایک نئی دریافت کا انتظار ہے۔
میگیدو اور قیصریہ کے انمول راز
اسرائیل میں صرف یروشلم ہی نہیں، بلکہ کئی اور ایسے قدیم شہر ہیں جنہوں نے مجھے واقعی متاثر کیا۔ میگیدو، جسے آرمگیڈون بھی کہا جاتا ہے، ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے 26 سے زیادہ تہذیبوں کی تہیں ملی ہیں۔ تصور کریں، ایک ہی جگہ پر 26 مختلف ادوار کی تہذیبیں ایک دوسرے کے اوپر بنی ہوئی ہیں۔ میں جب وہاں گیا، تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں وقت کے ایک گیٹ وے پر کھڑا ہوں۔ یہ علاقہ قدیم دور سے ہی تجارتی اور فوجی اہمیت کا حامل رہا ہے، اور یہاں کی کھدائیاں ہمیں جنگوں، امن کے ادوار اور مختلف حکمرانوں کی کہانیوں سے آگاہ کرتی ہیں۔ اسی طرح، قیصریہ ماریتیمہ، جسے رومن بادشاہ ہیروڈ نے تعمیر کیا تھا، ایک شاندار قدیم بندرگاہی شہر ہے۔ یہاں کی کھدائیوں سے ملنے والے تھیٹرز، حمام اور آبی گزرگاہیں رومن انجینئرنگ کے شاہکار ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں نے وہاں ایک پرانے اکھاڑے میں بیٹھ کر بحیرہ روم کی طرف دیکھا تھا، اور سوچا تھا کہ ہزاروں سال پہلے بھی لوگ یہاں بیٹھے سمندر کو دیکھتے ہوں گے، اپنے خواب بنتے ہوں گے۔ یہ جگہیں ہمیں بتاتی ہیں کہ کس طرح تہذیبیں پروان چڑھتی ہیں، عروج پاتی ہیں اور پھر تاریخ کے پردے میں کہیں گم ہو جاتی ہیں۔
دنیا کو حیران کر دینے والی اہم دریافتیں
ٹیکنالوجی کا آثار قدیمہ میں نیا استعمال
آج کے دور میں آثار قدیمہ کا میدان صرف کدال اور برش تک محدود نہیں رہا، بلکہ جدید ٹیکنالوجی نے اس میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ مجھے دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ کس طرح لیزر سکیننگ، ڈرونز اور جی پی ایس جیسی ٹیکنالوجیز ماہرین کو زمین کے نیچے چھپے رازوں کو جاننے میں مدد دے رہی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے ایک ماہر آثار قدیمہ سے بات کی تھی، اور اس نے مجھے بتایا کہ اب وہ زمین کو کھودے بغیر بھی اس کے نیچے کی ساخت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یہ نہ صرف وقت بچاتا ہے بلکہ تاریخی مقامات کو بھی نقصان سے بچاتا ہے۔ مثال کے طور پر، زیر زمین ریڈار (GPR) کی مدد سے وہ دیواروں، راستوں اور قدیم ڈھانچوں کا نقشہ بنا سکتے ہیں، جو کہ پہلے ناممکن تھا۔ یہ ٹیکنالوجی ہمیں نئے طریقوں سے تاریخ کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جیسے جیسے ٹیکنالوجی مزید ترقی کرے گی، ہم اور بھی ایسے رازوں سے پردہ اٹھا سکیں گے جو آج تک ہماری پہنچ سے دور ہیں۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں سائنس اور تاریخ مل کر ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔
ہماری تاریخ پر نئے سوالات
ہر نئی دریافت صرف پرانے سوالوں کے جواب نہیں دیتی بلکہ نئے سوال بھی پیدا کرتی ہے، جو انسانی فہم کی حدود کو مزید وسیع کرتے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ یہ سوالات ہی ہیں جو ہمیں آگے بڑھنے اور مزید جاننے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اسرائیل میں ملنے والی کئی دریافتوں نے انسانی تاریخ کے بارے میں ہمارے پہلے سے موجود نظریات کو چیلنج کیا ہے۔ مثال کے طور پر، بعض قدیم انسانی باقیات نے اس بات پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کیا ہے کہ انسان نے کب اور کیسے اس خطے میں ہجرت کی۔ یہ صرف پتھروں یا ہڈیوں کی بات نہیں، بلکہ یہ ہماری پوری دنیا کی کہانی کا حصہ ہیں جو مسلسل بدل رہی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے ایک یونیورسٹی کے پروفیسر سے بات کی تھی، اور انہوں نے کہا کہ ہر نئی کھدائی کے ساتھ انہیں تاریخ کو دوبارہ لکھنا پڑتا ہے، کیونکہ انہیں نئی معلومات ملتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ علم کی کوئی انتہا نہیں، اور اسرائیل کا آثار قدیمہ کا میدان اس بات کا بہترین ثبوت ہے۔
آثار قدیمہ کی بدولت ثقافت اور معیشت کی مضبوطی

مقامی معیشت کی ترقی کا انجن
دوستو، آثار قدیمہ کا شعبہ صرف تاریخ کو نہیں بچاتا، بلکہ یہ مقامی معیشت کے لیے بھی ایک اہم محرک کا کام کرتا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ کس طرح آثار قدیمہ کے مقامات کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ جب سیاح ان مقامات کو دیکھنے آتے ہیں، تو وہ ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں، مقامی کھانوں کا مزہ لیتے ہیں، اور یادگاری اشیاء خریدتے ہیں۔ اس سے نہ صرف چھوٹے کاروباروں کو فائدہ ہوتا ہے بلکہ پورے خطے کی معیشت کو تقویت ملتی ہے۔ مثال کے طور پر، قمران کے قریب جہاں بحیرہ مردار کے طومار ملے تھے، آج وہاں سیاحوں کی ایک بڑی تعداد آتی ہے۔ اس سے وہاں کے مقامی لوگوں کی زندگیوں میں خوشحالی آئی ہے۔ مجھے تو یہ ایک بہترین ماڈل لگتا ہے کہ کس طرح ہم اپنی ثقافتی وراثت کو محفوظ رکھتے ہوئے معاشی ترقی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا دائرہ ہے جہاں ہر کوئی فائدہ اٹھاتا ہے – سیاحوں کو نیا تجربہ ملتا ہے، مقامی لوگوں کو روزگار اور حکومت کو آمدنی۔
ثقافتی تبادلے اور عالمی تعلقات کا ذریعہ
آثار قدیمہ صرف ایک ملک کی تاریخ نہیں ہوتی، بلکہ یہ پوری دنیا کی مشترکہ وراثت ہوتی ہے۔ مجھے ہمیشہ سے محسوس ہوتا ہے کہ جب مختلف ممالک کے ماہرین آثار قدیمہ ایک ساتھ مل کر اسرائیل میں کام کرتے ہیں، تو یہ صرف مٹی کی کھدائی نہیں ہوتی بلکہ یہ ثقافتوں کا تبادلہ بھی ہوتا ہے۔ یہ تحقیق اور علم کے ذریعے عالمی تعلقات کو مضبوط کرتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک کانفرنس میں، میں نے دیکھا کہ کس طرح جاپان، امریکہ اور اسرائیل کے ماہرین ایک ہی پروجیکٹ پر مل کر کام کر رہے تھے۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں اختلافات کو بھلا کر علم کی جستجو میں سب ایک ہو جاتے ہیں۔ یہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہماری تاریخ کتنی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر، اسرائیل میں ملنے والی رومن یا یونانی اشیاء ہمیں بتاتی ہیں کہ کس طرح مختلف تہذیبوں کا آپس میں رابطہ تھا۔ یہ ثقافتی تبادلے ہمیں ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھنے اور عالمی بھائی چارے کو فروغ دینے میں مدد دیتے ہیں۔
مستقبل کے لیے نئی کھوجیں اور جدید طریقہ کار
ڈیجیٹل آثار قدیمہ کا عروج
آج کے دور میں آثار قدیمہ کا شعبہ تیزی سے ڈیجیٹل ہو رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک بہت ہی دلچسپ اور اہم رجحان ہے جو مستقبل میں مزید بڑھے گا۔ ڈیجیٹل آثار قدیمہ میں 3D ماڈلنگ، ورچوئل رئیلٹی (VR) اور اگمینٹڈ رئیلٹی (AR) جیسی ٹیکنالوجیز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک آن لائن نمائش میں دیکھا تھا کہ کس طرح ایک قدیم شہر کو تھری ڈی میں دوبارہ تخلیق کیا گیا تھا، اور آپ ورچوئل ٹور کے ذریعے اس میں گھوم سکتے تھے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ایک بہترین موقع ہے جو جسمانی طور پر ان مقامات پر نہیں جا سکتے۔ اس سے دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھا شخص اسرائیل کے آثار قدیمہ سے مستفید ہو سکتا ہے۔ یہ ڈیجیٹل ڈیٹا محفوظ کرنے اور اسے آنے والی نسلوں کے لیے دستیاب بنانے میں بھی مدد کرتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ طریقہ کار نہ صرف تحقیق کو آسان بنائیں گے بلکہ آثار قدیمہ کے علم کو مزید لوگوں تک پہنچانے میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔
نوجوان محققین کے لیے مواقع اور چیلنجز
میں ہمیشہ سے نوجوانوں کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ اگر آپ کو تاریخ اور کھوج میں دلچسپی ہے تو آثار قدیمہ ایک بہترین شعبہ ہے۔ اسرائیل جیسے ممالک میں جہاں تاریخ ہر قدم پر موجود ہے، نوجوان محققین کے لیے سیکھنے اور دریافت کرنے کے بے شمار مواقع ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں ایک یونیورسٹی میں لیکچر دینے گیا تھا، تو وہاں کچھ نوجوان طلباء نے آثار قدیمہ میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ یہ صرف مٹی کھودنا نہیں، بلکہ یہ ایک پہیلی حل کرنے جیسا ہے، جہاں ہر ٹکڑا ایک نئی کہانی بیان کرتا ہے۔ البتہ، اس شعبے میں کچھ چیلنجز بھی ہیں، جیسے فنڈنگ کا حصول اور جدید ٹیکنالوجیز میں مہارت حاصل کرنا۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ جذبہ اور لگن ہو تو ہر چیلنج کو موقع میں بدلا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جو آپ کو نہ صرف ماضی سے جوڑتا ہے بلکہ مستقبل کے لیے نئی راہیں بھی کھولتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ مزید نوجوان اس میدان میں آئیں گے اور اسرائیل کے انمول خزانوں کو دنیا کے سامنے لائیں گے۔
میرے اپنے مشاہدات: تاریخ کو چھو لینے کا احساس
تل ابیب کے عجائب گھروں میں ایک شام
مجھے یاد ہے، ایک سرد شام میں تل ابیب کے ایک آثار قدیمہ کے میوزیم میں گھوم رہا تھا۔ باہر بارش ہو رہی تھی اور اندر خاموشی میں صرف میرے قدموں کی آواز گونج رہی تھی۔ وہاں میں نے ہزاروں سال پرانے مجسمے، زیورات اور روزمرہ کی اشیاء دیکھیں، جو مجھے ایک عجیب سے احساس میں لے گئیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں ان لوگوں کی موجودگی کو محسوس کر رہا ہوں جنہوں نے کبھی ان چیزوں کو استعمال کیا ہوگا۔ ایک چھوٹا سا مٹی کا چراغ جو کسی گھر کو روشن کرتا ہوگا، ایک کانسی کا آئینہ جس میں کوئی اپنا چہرہ دیکھتا ہوگا – یہ سب چیزیں مجھے ایک تعلق کا احساس دلا رہی تھیں۔ میرا خیال ہے کہ عجائب گھر صرف پرانی چیزیں دکھانے کی جگہ نہیں ہوتے، بلکہ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں ہم اپنی انسانیت کی مشترکہ تاریخ سے جڑتے ہیں۔ مجھے وہاں بیٹھ کر یہ احساس ہوا کہ ہم سب ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں، جو وقت کے دھارے میں بہتے ہوئے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
صحرا میں کھدائی کا سنسنی خیز تجربہ
میں نے ایک بار ایک چھوٹے سے کھدائی کے مقام پر کچھ گھنٹے گزارنے کا موقع پایا تھا۔ یہ صحرائی علاقہ تھا، اور سورج کی تپش بہت زیادہ تھی۔ لیکن جب میں نے وہاں ماہرین کو ایک ایک ذرہ مٹی ہٹاتے دیکھا، تو مجھے ان کی لگن اور صبر پر حیرت ہوئی۔ وہ کسی خزانے کی تلاش میں نہیں تھے، بلکہ وہ علم کی تلاش میں تھے۔ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے ایک پرانی دیوار کا ایک چھوٹا سا حصہ دریافت کیا تھا، اور ان کے چہروں پر جو خوشی تھی وہ ناقابل بیان تھی۔ مجھے اس وقت احساس ہوا کہ آثار قدیمہ صرف کھدائی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک قسم کا فن ہے جہاں آپ کو صبر، بصیرت اور تاریخ کے لیے گہرا احترام درکار ہوتا ہے۔ یہ تجربہ میرے لیے بہت سنسنی خیز تھا، کیونکہ میں نے خود دیکھا کہ کس طرح مٹی کی گہرائیوں سے تاریخ کے ٹکڑے آہستہ آہستہ سامنے آتے ہیں۔ یہ میرا ماننا ہے کہ اسرائیل کی ہر کھدائی ایک نیا باب کھولتی ہے، اور ہمیں ہماری جڑوں سے مزید مضبوطی سے جوڑتی ہے۔
| آثار قدیمہ کا مقام | اہمیت | اہم دریافتیں |
|---|---|---|
| یروشلم | تین الہامی مذاہب کا مقدس شہر، قدیم تہذیبوں کا مرکز | سٹی آف ڈیوڈ، ہیکل سلیمانی کی دیواریں، قدیم سرنگیں، بازنطینی دور کی باقیات |
| میگیدو | کئی تہذیبوں کی تہیں (26 سے زائد)، اہم تجارتی اور فوجی چوراہا | قدیم شہر کی دیواریں، پانی کا نظام، عبادت گاہیں، پتھر کے اوزار |
| قیصریہ ماریتیمہ | رومن دور کی عظیم الشان بندرگاہ، ہیروڈ دی گریٹ کا تعمیر کردہ | تھیٹر، اکھاڑے، حمام، آبی گزرگاہیں، مجسمے |
| قمران | بحیرہ مردار کے طوماروں کی دریافت کا مقام | غاریں، قدیم نسخے (بحیرہ مردار کے طومار)، ایسینی فرقے کی بستی کی باقیات |
| بیت شیان | اہم رومن اور بازنطینی شہر، شاندار موزییک اور تھیٹر | تھیٹر، حمام، کالونیڈ سٹریٹس، بازنطینی چرچ |
بات ختم کرتے ہوئے
دوستو، میرا یہ ماننا ہے کہ اسرائیل کی سرزمین صرف ایک جغرافیائی خطہ نہیں، بلکہ یہ انسانی تاریخ اور تہذیب کا ایک جیتا جاگتا میوزیم ہے۔ مجھے جب بھی یہاں کے آثار قدیمہ کو دیکھنے کا موقع ملا، مجھے ایسا لگا جیسے میں خود وقت کے ایک سفر پر نکل گیا ہوں، جہاں ہر دریافت ایک نئی کہانی اور ایک نیا سبق سکھاتی ہے۔ یہ محض پتھر اور مٹی نہیں، بلکہ یہ ہمارے آبا و اجداد کی محنت، ان کی عقیدت اور ان کی زندگیوں کی عکاسی کرتی ہے۔ ان تجربات نے مجھے نہ صرف تاریخ کو سمجھنے کا ایک نیا نقطہ نظر دیا ہے، بلکہ یہ بھی احساس دلایا ہے کہ ہم سب ایک ہی بڑے انسانی خاندان کا حصہ ہیں، اور ہماری جڑیں کتنی گہری اور مشترکہ ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ کو بھی میری طرح ان گہرائیوں میں چھپے قصے سننے کا موقع ملے گا اور آپ بھی تاریخ کے اس حسین امتزاج سے متاثر ہوں گے۔
جاننے کے لیے مفید معلومات
1. جب بھی آپ اسرائیل کے آثار قدیمہ کے مقامات کا دورہ کریں تو آرام دہ جوتے پہنیں اور پانی کی بوتل ضرور ساتھ رکھیں۔ یہاں اکثر جگہوں پر پیدل چلنا پڑتا ہے اور دھوپ بھی تیز ہوتی ہے، اس لیے تیاری کے ساتھ جانا بہتر ہے۔
2. مقامی گائیڈز کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ان کے پاس ان مقامات کے بارے میں ایسی کہانیاں اور تفصیلات ہوتی ہیں جو آپ کو کسی کتاب میں نہیں ملیں گی۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ گائیڈ کے بغیر سفر ادھورا لگتا ہے۔
3. تصاویر لینے کے لیے اضافی بیٹری اور میموری کارڈ ضرور رکھیں۔ یہاں کے مناظر اور دریافتیں اتنی خوبصورت ہوتی ہیں کہ آپ ہر لمحے کو قید کرنا چاہیں گے۔ البتہ، بعض حساس مقامات پر فلیش استعمال کرنے سے گریز کریں۔
4. ان مقامات کے بارے میں پہلے سے تھوڑا پڑھ کر جائیں۔ جب آپ کسی جگہ کی تاریخ سے واقف ہوتے ہیں، تو اسے دیکھ کر آپ کو زیادہ گہرا احساس ہوتا ہے اور آپ اس سے زیادہ جڑ پاتے ہیں۔ آج کل آن لائن بہت سارے وسائل دستیاب ہیں۔
5. یہ یاد رکھیں کہ یہ مقامات صرف سیاحتی نہیں بلکہ تاریخی اور مذہبی اہمیت کے حامل بھی ہیں۔ اس لیے احترام کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور مقامات کی حرمت کا خیال رکھیں۔ یہ ہماری مشترکہ انسانی وراثت ہے۔
اہم نکات کا خلاصہ
اسرائیل کے آثار قدیمہ نے انسانی تاریخ اور الہامی کتب کے دعوؤں کو مضبوط کیا ہے۔ یہاں کی ہر دریافت نہ صرف ایک نئی سائنسی کہانی بیان کرتی ہے بلکہ ہماری تہذیبی جڑوں کو بھی گہرا کرتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے اب ہم ان رازوں کو مزید تیزی سے اور مؤثر طریقے سے جان رہے ہیں۔ یہ شعبہ صرف علم میں اضافہ نہیں کرتا بلکہ مقامی معیشت کو بھی مضبوط بناتا ہے اور عالمی ثقافتی تبادلے کا ذریعہ بھی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں بھی اس سرزمین سے مزید حیرت انگیز انکشافات سامنے آئیں گے جو انسانیت کی سمجھ کو مزید وسعت دیں گے۔
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: آثار قدیمہ کے لحاظ سے اسرائیل کو اتنا اہم کیوں سمجھا جاتا ہے؟
ج: میرے پیارے دوستو، اسرائیل کی زمین پر قدم رکھتے ہی آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کسی عام جگہ پر نہیں بلکہ ایک زندہ تاریخ کی کتاب میں آ گئے ہیں۔ مجھے خود یہاں جا کر یہ احساس ہوا کہ اس کی اہمیت کسی ایک وجہ سے نہیں بلکہ سینکڑوں تہذیبوں کے باہمی تعلقات کی وجہ سے ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں دنیا کے تین بڑے مذاہب— یہودیت، عیسائیت اور اسلام— نے جنم لیا اور پروان چڑھے۔ ہر کونے میں کوئی نہ کوئی قدیم بستی، غار یا کھنڈر مل جاتا ہے جو بائبل کی کہانیوں سے لے کر اس سے بھی ہزاروں سال پرانی انسانی سرگرمیوں کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ میری نظر میں، یہ صرف ایک علاقہ نہیں بلکہ انسانیت کی مشترکہ وراثت کا ایک خزانہ ہے، جہاں ماضی کے ہر باب کو مٹی کی تہوں میں محفوظ رکھا گیا ہے اور ہر کھدائی ایک نئی کہانی سامنے لے آتی ہے۔ یہاں کے آثار قدیمہ محض پتھروں اور برتنوں کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ وقت کے بہاؤ میں گم ہو جانے والے لوگوں، ان کے عقائد، ان کے فن اور ان کے روزمرہ کے طرز زندگی کی ایسی جھلکیاں دکھاتے ہیں جو آج بھی ہمیں حیران کر دیتی ہیں۔
س: اسرائیل میں کی جانے والی کچھ سب سے مشہور آثار قدیمہ کی دریافتیں کون سی ہیں اور وہ ہمیں کیا بتاتی ہیں؟
ج: جی! اسرائیل میں تو ایک سے بڑھ کر ایک حیران کن دریافتیں ہوئی ہیں جنھوں نے واقعی ہماری تاریخ کے بارے میں سوچنے کا انداز ہی بدل دیا ہے۔ سب سے نمایاں تو یقیناً بحیرہ مردار کے طومار (Dead Sea Scrolls) ہیں، جنہیں 1947 میں ایک چرواہے لڑکے نے قمران کی غاروں میں دریافت کیا۔ یہ طومار تقریباً 2,000 سال پرانے ہیں اور ان میں عبرانی بائبل کے قدیم ترین نسخے شامل ہیں۔ جب میں نے پہلی بار ان کے بارے میں پڑھا تو یہ میرے لیے کسی سنسنی خیز کہانی سے کم نہیں تھا، سوچیں، ہزاروں سال پرانے کلام کیسی حالت میں محفوظ رہے!
ان طوماروں نے یہودیت اور عیسائیت کی تاریخ اور اس وقت کی مذہبی جماعتوں کے بارے میں ہماری سمجھ میں انقلاب برپا کر دیا۔ اس کے علاوہ، یروشلم کے قدیم شہر کی کھدائیاں، جیسے کہ شہرِ داؤد (City of David) اور ہیکلِ ثانی (Second Temple) کے باقیات، ہمیں بائبل کے ادوار کے بادشاہوں، نبیوں اور عام لوگوں کی زندگی کے بارے میں ناقابل یقین تفصیلات فراہم کرتی ہیں۔ پھر مسادا (Masada) کا قلعہ ہے، جو رومی قبضے کے خلاف یہودی بغاوت کی ایک المناک اور بہادرانہ کہانی سناتا ہے۔ یہ دریافتیں صرف تاریخ کی نہیں بلکہ انسانی جذبات، عقائد اور صبر کی عکاسی کرتی ہیں۔
س: یہ آثار قدیمہ کے نتائج مذہبی متون اور قدیم تہذیبوں کے بارے میں ہماری سمجھ سے کس طرح تعلق رکھتے ہیں؟
ج: یہ سوال بہت گہرا ہے اور جب میں نے اس موضوع پر تحقیق کی تو مجھے بہت حیرت ہوئی۔ اسرائیل میں کی جانے والی آثار قدیمہ کی دریافتیں صرف مٹی میں دفن شدہ چیزیں نہیں ہیں، بلکہ یہ مذہبی متون اور ہماری قدیم تاریخ کے درمیان ایک پُل کا کام کرتی ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ بائبل میں بیان کی گئی کہانیاں یا جگہوں کا ذکر ان دریافتوں سے تصدیق شدہ ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، داؤد کے شہر کی کھدائیاں بائبل میں بیان کردہ واقعات کو تاریخی حقیقت کا رنگ دیتی ہیں۔ یہ صرف عقیدے کی بات نہیں رہتی بلکہ ٹھوس ثبوت بن جاتی ہے۔ ان دریافتوں سے ہمیں قدیم تہذیبوں کے طرز زندگی، ان کی ٹیکنالوجی، ان کے عقائد اور ان کے سیاسی ڈھانچوں کے بارے میں گہرائی سے جاننے کا موقع ملتا ہے۔ مجھے ہمیشہ یہ سوچ کر خوشی ہوتی ہے کہ یہ چیزیں صرف تاریخ دانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر اس شخص کے لیے قیمتی ہیں جو انسانیت کے ماضی کو سمجھنا چاہتا ہے۔ یہ ہمیں یہ بھی دکھاتی ہیں کہ مذاہب کس طرح وقت کے ساتھ ارتقا پذیر ہوئے اور مختلف ثقافتوں سے متاثر ہوئے، جو آج کے دور میں ہماری دنیا کو سمجھنے کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ مجھے ہمیشہ انسانی تاریخ کی خوبصورتی اور اس کی گہرائی کا احساس دلاتا ہے۔






